Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

صیہونیزم

حانوکاہ کے دوران فلسطینی مقدسات پر خطرناک اقدامات

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

یہودی مذہبی تہوار جسے “حانوکاہ” یا “عید الانوار” کہا جاتا ہے اس برس ایک بار پھر صہیونی انتہا پسندی کے سیاہ چہرے کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ یہ تہوار قابض اسرائیل اور اس کے شدت پسند آبادکاروں کے لیے صرف ایک مذہبی رسم نہیں رہی بلکہ فلسطینیوں کی مذہبی آزادی پامال کرنے، مقدس مقامات کی بے حرمتی کرنے اور اپنی نفرت کی آگ کو غزہ، مغربی کنارے اور القدس کے آسمان تک پھیلانے کا ذریعہ بن گیا۔ وہ آگ جو مسجد اقصیٰ کے صحن میں سلگتی دکھائی دی، وہی آگ غزہ کے ہسپتالوں کو جلاتی اور مغربی کنارے کے شہروں اور کیمپوں کا ناطقہ بندکرتی رہی، جبکہ دنیا خاموشی سے اس سیاہ دھوئیں کو دیکھتی رہی۔

شناخت مٹانے کی منظم اور جنونی یلغار

امور القدس کے ماہر محقق زیاد ابحیص نے “مرکزاطلاعات فلسطین” سے گفتگو میں کہا کہ نام نہاد عید الانوار کا پہلا دن مسجد اقصیٰ مبارک کے خلاف منظم صہیونی جارحیت کے ایک نئے اور خطرناک مرحلے کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ جارحیت محض وقتی نہیں بلکہ ایک طویل المدت منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مقصد مسجد اقصیٰ کی اسلامی شناخت، اس کے قانونی تشخص اور اس کی تاریخی حیثیت کو بتدریج مسخ کرنا ہے۔

زیاد ابحیص کے مطابق حانوکاہ اتوار 14 دسمبر 2025ء کو غروب آفتاب کے بعد شروع ہوا اور آٹھ دن تک جاری رہےگا۔ یہ تہوار یہودیت میں نسبتاً بعد کے دور میں شامل کیا گیا اور یہودی روایات کے مطابق سنہ 164 قبل مسیح میں فلسطین پر قابض سلوقی اقتدار کے خلاف پہلی یہودی بغاوت کی یاد سے جوڑا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس دور میں پہلے سلوقی اور پھر رومی سلطنت کے زیر سایہ یہودی خود مختاری کی ایک عارضی شکل قائم ہوئی تھی، جسے رومی شہنشاہ ہیڈرین نے سنہ 135ء میں اپنی فوجی یلغار کے دوران ختم کر دیا۔

ابحیص نے وضاحت کی کہ ہیکل تنظیمیں برسوں سے اس تہوار کو مسجد اقصیٰ پر حملوں کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے سرگرم ہیں، تاکہ بڑے یہودی تہواروں کے درمیان وقفہ کم کیا جا سکے اور پورا سال مسجد اقصیٰ کو نشانے پر رکھا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ان تنظیموں کا مقصد حانوکاہ کو مسجد اقصیٰ پر نام نہاد مکمل صہیونی بالادستی کے مطالبے کی علامت بنانا اور اردنی اسلامی اوقاف کے کردار کو بتدریج ختم کرنا ہے۔

پہلے دن اشتعال انگیز رسومات کا ایک واضح سلسلہ سامنے آیا۔ باب القطانین کے باہر پہلی شمع جلائی گئی، جو سنہ 2021ء سے دہرایا جا رہا ہے ایک خطرناک عمل ہے۔ اسی طرح باب المغاربہ کی جانب جانے والے پل پر ایک بڑا شمعدان نصب کیا گیا، جہاں جبل الہیکل مذہبی سکول کے طلبہ نے دن کے وقت پہلی شمع روشن کی، جو مذہبی روایت کے بھی خلاف ہے۔ یہ عمل اس کھلی خواہش کا اظہار تھا کہ ان رسومات کو مسجد اقصیٰ کے اندر منتقل کیا جائے۔

ابحیص نے بتایا کہ صہیونی دراندازوں نے مسجد اقصیٰ کے اندر ایک چھوٹا علامتی شمعدان بھی چھوڑا جس میں نو میں سے دو شمعیں نصب تھیں۔ یہ علامت اس مسلسل کوشش کی عکاس ہے جس کے ذریعے شمعدان روشن کرنے کی رسومات کو مسجد کے اندر معمول بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تمام اقدامات ایک بتدریج پالیسی کا حصہ ہیں، جس کا مقصد مسجد اقصیٰ میں مکمل یہودی رسومات نافذ کرنا اور نام نہاد ہیکل کی معنوی بنیاد رکھنا ہے تاکہ بعد میں اس کی مادی صورت گری کی جا سکے۔

زیاد ابحیص کے مطابق پہلے دن 220 صہیونی آبادکاروں نے مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولا، جن کی قیادت جبل الہیکل مذہبی سکول کے ربی الیشع وولفسون کر رہے تھے۔ ان دراندازوں نے کھلے عام اجتماعی رسومات ادا کیں اور مشرقی صحن میں گیتوں کے حلقے بنا کر اس حصے کو غیر اعلانیہ کنیسہ میں بدلنے کی کوشش کی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ یہ جارحیت پیر 22 دسمبر 2025ء تک جاری رہے گی اور جیسے جیسے تہوار اپنے اختتام کے قریب پہنچے گا، حملوں کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

ابحیص نے زور دے کر کہا کہ صہیونی جارحیت صرف مسجد اقصیٰ تک محدود نہیں بلکہ الخلیل کی ابراہیمی مسجد تک پھیلی ہوئی ہے، جہاں قابض اسرائیل اور آبادکار حانوکاہ کو مرکزی سالانہ تقریب بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو اسلامی مقدسات کو یہودیانے کی ہمہ گیر پالیسی کا حصہ ہے۔

مقبوضہ بیت المقدس گورنری نے ایک بیان میں، جس کی نقل مرکزاطلاعات فلسطین کو موصول ہوئی، بتایا کہ آبادکاروں نے مسجد اقصیٰ کے مشرقی حصے میں باب الرحمہ کے مصلیٰ کے قریب عید الانوار کے دوسرے دن کی علامتی شمع نصب کر کے ایک اور کھلی خلاف ورزی کی۔

حانوکاہ کی آگ اور مجرمانہ ذہنیت کی عریاں تصویر

غزہ میں وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البرش نے کہا کہ شمالی غزہ کے انڈونیشین ہسپتال میں قابض اسرائیل کے فوجیوں کا نام نہاد عید الانوار منانا ایک ایسی مجرمانہ ذہنیت کو بے نقاب کرتا ہے جو آگ، تباہی اور خون کو نور کا نام دیتی ہے۔

انہوں نے ایکس پر جاری بیان میں کہا کہ قابض فوج کی بٹالین 22 کے اہلکاروں نے انڈونیشین ہسپتال کی بالائی منزل کو آگ لگا دی اور پھر مسکراتے ہوئے اندھیرے پر نور کی فتح کے دعوے کرنے لگے۔ یہ وہ جگہ تھی جو جانیں بچانے کے لیے بنی تھی، جلانے اور خاکستر کرنے کے لیے نہیں۔

ڈاکٹر البرش نے سوال اٹھایا کہ ہسپتالوں کی راکھ سے کون سا نور جنم لیتا ہے اور اس ذہنیت سے بڑا اندھیرا کیا ہو سکتا ہے جو مریضوں کے علاج کی جگہ کو جشن کا میدان بنا دے۔ ان کے بقول یہ کوئی مذہبی رسم نہیں بلکہ نفرت، سفاکیت اور جلاؤ کا تہوار ہے۔

انہوں نے کہا کہ شفا اور رحم کی علامت ہسپتال کو آگ لگانا اور پھر اسے نور کہنا انسانی اقدار کی دانستہ توہین ہے اور ایک ایسی سادی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو ہسپتالوں کو جائز عسکری ہدف سمجھتی ہے۔

ڈاکٹر البرش نے واضح کیا کہ یہ کوئی انفرادی واقعہ نہیں بلکہ ایک جڑی ہوئی نازی ذہنیت کی علامت ہے جو صحت کے ڈھانچے کو تباہ کرنے اور جرائم کو تہواروں میں بدلنے سے نہیں ہچکچاتی۔

انہوں نے کہا کہ حقیقت بے حد سادہ مگر نہایت سفاک ہے، آگ روشنی نہیں دیتی بلکہ سب کچھ راکھ کر دیتی ہے، اور حقیقی نور بندوق کی نالی یا شعلوں سے نہیں بلکہ انسانی قدروں سے جنم لیتا ہے۔

تنازعے کی اصل حقیقت کی یاد دہانی

سیاسی تجزیہ نگار یاسر الزعاترہ نے کہا کہ صہیونی آبادکاروں کی جانب سے عید کے موقع پر مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی دراصل تنازعےکے اصل عنوان کی یاد دہانی ہے۔

انہوں نے ایکس پر بیان میں کہا کہ جسے وہ عید الانوار یا حانوکاہ کہتے ہیں، اسی نام پر درجنوں آبادکاروں نے مسجد اقصیٰ کو ناپاک کیا۔ اسی نام پر ایک عظیم انتفاضہ برپا ہوا، اسی نام پر طوفان آیا اور یہی اس بات کی علامت ہے کہ مسلط کردہ حل کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ فریب کے سوداگر یہ حقیقت جانتے ہیں، مگر ذلت کی زندگی انہیں حق کے لیے کھڑے ہونے سے زیادہ عزیز ہے۔

صہیونی جشن کی یہ آگ صرف القدس تک محدود نہ رہی بلکہ قابض فوجیوں نے مغربی کنارے اور غزہ میں بھی شمعیں جلا کر، رقص کر کے اور آگ بھڑکا کر اپنی سفاکیت کا اظہار کیا۔

معین الکحلوت نے ایکس پر لکھا کہ اس منظر میں حیرت کی کوئی بات نہیں، حیرت تو اس پر ظاہر کی جاتی ہے۔ انہوں نے طولکرم کے کیمپ میں قابض فوجیوں کی شمعیں جلاتے ہوئے تصویر بھی شیئر کی۔

اسی طرح قابض فوجیوں نے غزہ میں انڈونیشین ہسپتال کی چھت پر بھی حانوکاہ منایا، گویا راکھ اور درد ان کے لیے جشن کا سامان ہو۔

مسجد اقصیٰ سے متعلق ایک اکاؤنٹ نے لکھا کہ حانوکاہ ہر سال آبادکاروں کا وہ تہوار ہے جو القدس کے چہرے کو مسخ کرتا ہے، تو اس برس مسجد اقصیٰ پر جاری بے مثال جنگ کے سائے میں یہ کیسا گزرے گا، اس کا جواب خود تاریخ دے گی۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan