مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ایک یہودی تقریب کو نشانہ بناتے ہوئے مسلح حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب قابض اسرائیل غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف نسل کش جنگ جاری رکھے ہوئے ہے اور دنیا بھر میں اس کے اثرات مختلف شکلوں میں سامنے آ رہے ہیں۔
آسٹریلوی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک مسلح شخص نے سڈنی کے علاقے بونڈی بیچ پر یہودیوں کی جانب سے منائی جانے والی نام نہاد روشنیوں کی عید حانوکا کی تقریب پر فائرنگ کر دی۔
آسٹریلوی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ حملے میں 10 افراد مارے گئے جن میں حملہ آور بھی شامل ہے جبکہ 11 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
آسٹریلوی چینل اے بی سی نے ایک سکیورٹی عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ حملے کے مبینہ ذمہ دار کی شناخت ناوید اکرم کے نام سے کی گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر واقعے کی ویڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں جن میں جائے وقوعہ پر خوف و ہراس کا منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں سے بعض ویڈیوز آسٹریلیا میں یہودی برادری سے منسلک اکاؤنٹس کے ذریعے شیئر کی گئیں۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق فائرنگ کی زد میں ساحل پر موجود سیاح اور جشن میں شریک افراد آئے۔
نیوساؤتھ ویلز کی پولیس نے علاقے میں موجود افراد کو فوری طور پر وہاں سے دور رہنے اور محفوظ مقامات پر پناہ لینے کی ہدایت کی ہے۔ پولیس نے کہا ہے کہ سکیورٹی صورتحال تاحال حساس ہے اور واقعے کی مکمل تحقیقات جاری ہیں۔
آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز کے دفتر نے بھی پیش رفت پر نظر رکھنے کی تصدیق کی۔ وزیر اعظم کے ترجمان نے کہا کہ شہری پولیس کی ہدایات پر عمل کریں اور صرف سرکاری ذرائع سے جاری ہونے والی معلومات پر انحصار کریں۔
ابتدائی ردعمل میں عالمی صہیونی تنظیم کے سربراہ یعقوب ہاگوئل نے اس واقعے کو دنیا بھر میں یہود مخالف حملوں میں اضافے سے جوڑنے کی کوشش کی اور آسٹریلوی حکومت سے سخت موقف اپنانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ تنظیم سڈنی سمیت دنیا بھر میں یہودی برادری کی حمایت جاری رکھے گی۔
آسٹریلوی حکام نے کہا ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے تک واقعے کے بارے میں مزید سرکاری معلومات بعد میں جاری کی جائیں گی۔
یہ واقعہ ایک ایسے پس منظر میں پیش آیا ہے جب قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلط کی گئی نسل کش جنگ کے بعد سنہ 2023ء کے اکتوبر سے آسٹریلیا کے بڑے شہروں سڈنی میلبورن برسبین اور پرتھ میں فلسطین کے حق میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ یہ مظاہرے ملک کی تاریخ میں فلسطینی کاز کے حق میں ہونے والی سب سے بڑی عوامی تحریک قرار دیے گئے۔
ان احتجاجات میں انسانی حقوق کے کارکنوں مزدور یونینز اساتذہ طلبہ عرب اور مسلم برادریوں کے افراد کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں غیر عرب آسٹریلوی شہریوں نے بھی شرکت کی۔
یہ مظاہرے مجموعی طور پر پُرامن اور منظم رہے تاہم جنگ کے ابتدائی ہفتوں میں پولیس اور بعض میڈیا حلقوں کی جانب سے دباؤ اور پابندیوں کی کوششیں بھی سامنے آئیں۔
ان احتجاجی اجتماعات نے سیاسی اور قانونی مطالبات کے اظہار کی ایک کھلی فضا فراہم کی۔ مظاہرین کا مرکزی مطالبہ غزہ پر مسلط جنگ کے فوری خاتمے اور سیز فائر کا نفاذ تھا کیونکہ یہ جنگ شہریوں اور پورے سماجی ڈھانچے کو نشانہ بنا رہی ہے اور بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔
مظاہرین نے اس جنگ میں آسٹریلیا کے کردار پر بھی شدید تنقید کی اور مطالبہ کیا کہ قابض اسرائیل کو اسلحہ اور فوجی سازوسامان کی برآمدات فوری طور پر روکی جائیں چاہے وہ براہ راست ہوں یا تیسرے فریق کے ذریعے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان برآمدات کا تسلسل آسٹریلیا کو فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والے جرائم میں بالواسطہ شریک بناتا ہے اور یہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ قابض اسرائیل کے ساتھ فوجی اور سکیورٹی تعاون ختم یا منجمد کرنے کا مطالبہ بھی زور پکڑتا رہا۔ مظاہرین کے مطابق یہ اقدام قابض ریاست پر دباؤ ڈالنے اور اسے جرائم کے لیے سیاسی اور سکیورٹی تحفظ دینے سے روکنے کے لیے ناگزیر ہے۔
احتجاجات میں یہ مطالبہ بھی نمایاں رہا کہ قابض اسرائیل کو عالمی سطح پر جواب دہ ٹھہرایا جائے اور بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت میں قانونی کارروائی کی مکمل حمایت کی جائے تاکہ انصاف یقینی بنایا جا سکے اور مجرموں کو سزا سے بچنے نہ دیا جائے۔
