Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

پی ایل ایف نیوز

چند لاکھ صیہونی اور مسلمان دنیا

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
ایک عام معلومات کے مطابق دنیا بھر کی کل آبادی 8.2ارب ہے، اس کل آبادی میں یہودیوں کی آبادی 15ملین یعنی ایک کروڑ پچاس لاکھ ہے۔ ان میں سے آدھے یعنی کے 7.6ملین یہودی وہ ہیں جن کو صیہونی کہا جاتا ہے۔اور یہی آج کل فلسطین کی سرزمین مقدس پر قابض ہیں۔ ان صیہونیوں کی اصل بنیاد نپولین بونا پارٹ کے زمانے سے جا ملتی ہے جو بعد ازاں تھیوڈر ہرٹزل کے زمانہ میں یعنی انیسویں صدی کے خاتمہ کے وقت زیادہ ابھر کر سامنے آئی اور پھر بعد میں امریکہ اور برطانیہ کی حمایت نے اس صیہونی تحریک یا صیہونزم کو پروان چڑھاتے ہوئے فلسطین پر قبضہ کی اجازت دی تو سنہ1948 میں اسرائیل ایک ناجائز ریاست کے طور پر ابھرا اور یہاں صیہونیوں نے حکومت قائم کی۔یعنی فلسطین پر قبضہ کرنے والے صیہونی یہودی ہیں۔ یہ ایک علیحدہ بحث موجود ہے کہ موجودہ زمانے میں مسیحی صیہونزم کے ساتھ ساتھ مسلم صیہونزم بھی ایجاد ہو چکی ہے۔
یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل درست ہےکہ دنیا بھر کے لاکھوں یہودی مسلمان مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ جو حقیقی یہودی ہیں وہ تو صہیونزم اور فلسطین پر صیہونی غاصب ریاست اسرائیل کے خلاف بھی آواز اٹھاتے ہیں۔
آج کی دنیا میں یہ کیا وجہ ہے کہ صرف 7.6ملین صیہونی یہودی دنیا بھر کے امن کو تباہ و برباد کئے ہوئے ہیں اور امریکہ سمیت برطانیہ اور دیگر مغربی طاقتیں ان مٹھی بھر صیہونیوں کی بھرپور مالی اور مسلح مدد بھی کر رہی ہیں۔ اس کے چند ایک عوامل میں ایک اہم عنصر یہ ہے کہ مغربی دنیا کو غرب ایشیائی خطے میں وسائل پر تسلط اور اپنی بالا دستی کوNeo Colonialism کی شکل میں زندہ رکھنے کے لئے ایک ایسے آلہ کی ضرورت ہے جو فلسطین پر قابض اسرائیل کی صورت میں موجود ہے۔ شاید یہی بنیادی وجہ بنی تھی کہ مغربی استعماری قوتوںنے باقاعدہ سازش کے ساتھ اس خطے میں دنیا بھر سے صیہونیوں کو لا کر جمع کیا اور ان کے لئے راستہ ہموار کیا کہ وہ فلسطین پر قبضہ کریں۔
آج یہی چند لاکھ صیہونی یہودی ہیں جو نہ صرف فلسطین پر قابض ہیں بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہےہیں، گذشتہ 78سالوںسے فلسطینیو ں کو جبری جلا وطن کرنے سمیت دنیا بھر کے مظام فلسطینیوں پر ڈھائے جارہے ہیں تا کہ فلسطینی عوام اپنے وطن سے دستبردار ہو جائے اور اس خطے میں زمینی و سمندری راستوں پر مکمل طور پر اسرائیل کا تسلط ہو جس کو امریکہ اور برطانیہ جیسی شیطانی حکومتوں کے فائدے کے لئے استعمال کیا جائے۔
فلسطین کے اطراف میں موجود مسلمانوں کی کثیر تعداد والے سارے ممالک ہی اس صیہونزم کے خطرے کا شکار ہو چکے ہیں۔ شام اور لبنان پر ہمیشہ سے غاصب صیہونیوںنے قبضہ کا خواب دیکھا اور کئی ایک علاقوں پر ان کا قبضہ بھی ہے ۔ اسی طرح حالیہ دنوں میں لبنان اور شام کے علاقوں پر کھلے عام اسرائیلی جارحیت اور بمباری کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ چند مٹھی بھر صیہونی امریکی حمایت کے ساتھ خطے کی مسلمان اقوام کو دہشتگردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ان چند لاکھو صیہونیوںنے شام اور لبنان کے بعد ایران اور قطر جیسے خود مختار ممالک پر بھی دہشتگردانہ حملے کئے ہیں۔ ایران نے تو اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے لیکن قطر کی جانب سے ایسا کوئی جواب نہیں دیا گیا جس سے ان صیہونیوں کو لگام دی جا سکتی تھی۔اسی طرح ان چند مٹھی بھر صیہونیوںنے یمن پر بھی دہشتگردانہ کاروائیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔عراق کے خلاف بھی یہی چند لاکھ صیہونی اپنی کاروائیاں انجام دے چکے ہیں اور اب بھی سازشوں میں مصروف ہیں۔ سوڈان سمیت لیبیا اور دیگر ممال میں بھی ہمیں انہی صیہونیوں کی دہشتگردانہ کاروائیاں اور سازشیں واضح طور پر نظر آ رہی ہیں۔
حیرت انگیز بات ہے کہ ان صیہونیوں نے جنگ کا میدان صرف اور صرف ایسے ممالک کو قرار دیا ہے جہاں مسلمان اقوام آباد ہیں، جہاں معدنی ذخائر اور قدرتی وسائل سے مالا مال ممالک موجود ہیں، یہ سارے ممالک ہی مسلمان ہیں۔ جبکہ یورپ اور مغربی ممالک میں ابھی تک ان صیہونیوں نے کوئی ایسی جنگ اور دہشتگردانہ کاروائیاں انجام نہیں دی ہیں جس طرح کی مسلمان ممالک میں انجام دی جا رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک ان چند لاکھ صیہونیوں کو مدد فراہم کر رہے ہیں تا کہ یورپ اور مغرب کے سامنے ان مسلمان ممالک کو جھکایا جائے اور دنیا بھر میں اپنی حکمرانی اور بالا دستی کو آشکار کیا جائے۔ اس کام کے لئے یہی فلسطین پر قابض چند لاکھ صیہونی ہیں جن کو استعمال کیا جا رہاہے۔
یہاں سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ مسلمان ممالک کے جن کی کل تعداد ستاون ہے اور کل آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق تین سو ملین ہے ۔اب آپ دیکھئے کہ سات سے آٹھ ملین صیہونی تین سو ملین مسلمانوں کو اپنے ناپاک عزائم کا شکار کر رہےہیں اور دنیائے اسلام کے حکمران اس پر بھی امریکہ کے سامنے کاسہ لیسی کرتے ہیں، اسرائیل کے ساتھ تعلقات بناتے ہیں اور فلسطینی عوام کی مدد سے کتراتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور اتحاد کی کمی نے ان چند لاکھ صیہونیوں کو امریکہ اور برطانیہ کی مدد کے ذریعہ یہ موقع فراہم کر رکھا ہے کہ وہ دنیا کے ان تین سو ملین افراد کی قسمت کا فیصلہ کریں، جب چاہیں جہاں چاہیں جس ملک پر حملہ کریں، دہشت گردی کریں، جس رہنما کو چاہے تو قتل کر دیں، کھلے عام غزہ میں نسل کشی کریں، صحافیوں کو قتل کریں، دنیا کا ہر جرم انجام دیں لیکن ان کو روکنے والا کوئی ہاتھ موجود نہیںکیونکہ ستاون اسلامی ممالک میں اتفاق اور اتحاد کی بہت زیادہ کمی ہے۔درج بالا تمام مسائل اور مشکلات کا حل نکالا جا سکتا ہے اگر عالم اسلام کے حکمران یہ ٹھان لیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اتحاد کے راستے کو اپنائیں گے، ایک دوسرے کے مشکل حالات میں مدد کریں گے ، آپ میں ترقی اور پیش ردت کے دو طرفہ تبادلہ کو فروغ دیں گے اور مشترکہ دشمن کےخلاف مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ نمٹیں گے تو یقینا یہ دنیا کے چند لاکھ صیہونی کسی حیثیت کے حامل نہ ہوں گے کیونکہ ان صیہونیوں کے ساتھ امریکہ اور برطانیہ سمت فرانس اور یورپی و مغربی حکومتیں متحد ہیں اور اگر مسلمان ممالک کے حکومتیںبھی متحد ہو جائیں گی تو پھر یقینی طور پر فلسطینی عوام کو آزادی ملے گی، شام و لبنان پر اسرائیلی غاصبانہ تسلط کا خاتمہ ہو گا، کسی میں یہ ہمت نہ ہو گی کہ وہ قطر یا کسی اور مسلمان ملک کی خود مختاری کے خلاف کاروائی کرے۔ یعنی مسلمانوں کا اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت اور دنیائے اسلام کے مسائل کا حل یہی اتحاد ہی ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan