مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
غزہ کی پٹی میں ادویات کا بحران مسلسل خطرناک ترین سطح کی طرف بڑھ رہا ہے، جس نے ہزاروں مریضوں کی زندگیاں داؤ پر لگا دی ہیں۔ ہسپتالوں کے دروازوں پر طویل قطاروں میں کھڑے مریض اس امید میں انتظار کر رہے ہیں کہ دوا بیماری کی پیچیدگیوں سے پہلے پہنچ جائے۔
یہ منظرنامہ نہایت تاریک ہے، جیسا کہ غزہ میں وزارت صحت کے ڈائریکٹوریٹ برائے ہسپتال فارمیسی کے سربراہ علاء عدنان حلس بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ”صحت کا شعبہ اپنی تاریخ کے بدترین لمحات سے گزر رہا ہے”۔
حیران کن اعداد و شمار
علاء حلس کہتے ہیں کہ “ہم عملی طور پر مکمل انہدام کے سامنے کھڑے ہیں۔ بنیادی ادویات کی فہرست میں شامل 55 فیصد سے زائد ادویات دستیاب نہیں جبکہ 71 فیصد سے زیادہ طبی استعمال کی اشیا صفر کی سطح تک پہنچ چکی ہیں۔ وزارت کے گودام تقریباً خالی ہیں اور اس کی قیمت مریض روزانہ اپنی جانوں سے ادا کر رہے ہیں”۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کئی بنیادی طبی خدمات مکمل طور پر بند ہو چکی ہیں، جن میں اوپن ہارٹ سرجری سرفہرست ہے، جبکہ ہڈیوں اور کینسر کی جراحی خدمات روز بروز ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
الشفاء میڈیکل کمپلیکس کے ڈائریکٹر نے گذشتہ بیان میں تصدیق کی تھی کہ ایک لاکھ ستر ہزار زخمیوں میں سے بیالیس ہزار افراد فوری جراحی کے منتظر ہیں، جبکہ ادویات اور طبی سامان کی شدید قلت برقرار ہے۔
ایسا درد جو انتظار سے نہیں بھرتا
الشفاء ہسپتال کے شعبہ علاج سرطان میں 47 سالہ سامی محمد قندیل بیٹھے ہیں، جو محلہ التفاح کے رہائشی اور ریاضی کے استاد ہیں۔ وہ کیموتھراپی کی پانچویں خوراک کے منتظر ہیں مگر دوا موجود نہیں۔
سامی دھیمی آواز میں کہتے ہیں کہ “میں نے چار ماہ قبل علاج شروع کرایا تھا اور سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ چند ہفتے پہلے بتایا گیا کہ دوا دستیاب نہیں۔ مجھے بیماری سے نہیں ڈر لگتا بلکہ اس تاخیر سے خوف آتا ہے جو مرض کو ناقابل قابو بنا سکتی ہے”۔
ان کی اہلیہ سلوٰی ناصر جو روزانہ ان کے ساتھ آتی ہیں کہتی ہیں کہ “ہم کوئی معجزہ نہیں مانگ رہے۔ صرف وہ علاج مکمل کرنا چاہتے ہیں جو شروع کیا تھا۔ بیماری انتظار نہیں کرتی اور وقت ہمارے حق میں نہیں”۔
ایک معمولی فریکچر، ایک بڑا بحران
خان یونس کے ناصر ہسپتال میں 13 سالہ لیث عماد ابو رمّالہ زیر علاج ہے، جو فٹبال کھیلتے ہوئے ٹانگ تڑوا بیٹھا۔
یہ ایک سادہ کیس تھا مگر دھاتی فکسیٹرز دستیاب نہ ہونے کے باعث آپریشن ملتوی کر دیا گیا۔
اس کے والد عماد ابو رمّالہ کہتے ہیں: “ہمیں بتایا گیا کہ آپریشن تیار ہے مگر آلات موجود نہیں۔ لیث درد اور انتظار میں مبتلا ہے اور ہم بے بس ہیں۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں ایسا فریکچر فوری ٹھیک ہو جاتا ہے، مگر یہاں نہیں”۔
ہڈیوں کے ڈاکٹر حماد شعث نے تصدیق کی: “ہڈیوں کے فکسیٹرز مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں۔ بعض اوقات ہم کچھ آلات کو جراثیم سے پاک کر کے دوبارہ استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں مگر یہ ہر کیس کے لیے مناسب نہیں، خاص طور پر بچوں کے لیے”۔
ایک دل جو زندگی کی دھڑکن کا منتظر ہے
نصیرات کیمپ سے تعلق رکھنے والی دو بچوں کی ماں 32 سالہ منار حسام ابو کویک دل کی کیتھیٹرائزیشن کے کمرے کے باہر بیٹھی ہیں، جہاں خدمات کئی ہفتوں سے معطل ہیں۔
ڈاکٹروں نے فوری مداخلت کی سفارش کی تھی اور منار آپریشن کے لیے تیار تھیں۔
وہ کہتی ہیں: “آپریشن کی تاریخ بارہ دن پہلے تھی۔ میں ذہنی طور پر تیار تھی مگر بتایا گیا کہ ضروری سامان دستیاب نہیں۔ کبھی کبھار شدید دھڑکن اور سانس کی دشواری ہوتی ہے مگر کوئی متبادل نہیں۔ بس انتظار ہے”۔
انہوں نے مزید کہا: “خوف مجھے اپنی ذات کا نہیں بلکہ اپنے بچوں کا ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ محرومی کا کوئی لمحہ دیکھیں”۔
دل کے امراض کے ماہر ڈاکٹر رباح ازریق نے صورتحال کی سنگینی بیان کرتے ہوئے کہا: “اوپن ہارٹ سرجری کا رک جانا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ وہ آپریشنز ہیں جو براہ راست جان بچاتے ہیں۔ آج ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے کھڑے ہیں کیونکہ ہمارے پاس بنیادی سامان تک موجود نہیں”۔
انہوں نے بتایا کہ بعض مریض ایسے نازک مرحلے میں ہیں جہاں آپریشن میں تاخیر ممکن نہیں۔
سرطان کے ماہر ڈاکٹر خالد ثابت کہتے ہیں: “سب سے مشکل لمحہ وہ ہوتا ہے جب ہم علاج کے لیے آنے والے مریض کو بتاتے ہیں کہ دوا موجود نہیں۔ یہ احساس ناقابل فراموش ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ یہ منظر بار بار دہرایا جائے”۔
بین الاقوامی اداروں کے لیے آخری پکار
علاء حلس نے اپنی بات ایک واضح اپیل پر ختم کی: “ہم عالمی ادارہ صحت، اقوام متحدہ کے انسانی فنڈ، ریڈ کراس اور ہلال احمر سمیت ہر اس ادارے سے اپیل کرتے ہیں جو مداخلت کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مریضوں کے پاس مزید وقت نہیں۔ ہمیں ادویات اور طبی استعمال کی اشیا کی فوری فراہمی کی اشد ضرورت ہے”۔
