مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ۔ خصوصی رپورٹ
غزہ پر مسلط جنگ نے اسرائیل کے مالی توازن میں وسیع بے ترتیبی پیدا کر دی ہے، جس کی وجہ سے حکومتی قرضوں میں بے پناہ اضافہ، عوامی قرض پر سود کی ادائیگی میں اضافہ اور بجٹ میں خسارہ بڑھ گیا ہے، جبکہ شرح سود میں بلندی اور کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کا سامنا ہے۔
فوجی اخراجات میں اضافے اور مالی اختیار کی محدودیت کے ساتھ، اسرائیلی ادارے خبردار کر رہے ہیں کہ جنگ کے اثرات سالوں تک معیشت پر بوجھ ڈالتے رہیں گے۔
وزارتِ مالیات کے اعداد و شمار کے مطابق جسے گلوبس ویب سائٹ نے رپورٹ کیا ہے، عوامی قرض پر سود کے اخراجات 2027 کے لیے 64 ارب شیکل (Shekel)تک پہنچ گئے ہیں، جبکہ 2022 میں یہ 43 ارب شیکل (Shekel) تھے، یعنی صرف پانچ سالوں میں تقریباً 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
قرضوں میں اضافہ اور ناقابل برداشت خسارہ
وزارت کا کہنا ہے: یہ مالی بوجھ قابض حکومت کو مجبور کرے گا کہ وہ ٹیکسز میں اضافہ کرے اور سول اخراجات کو کم کرے، جس سے بحران کے دوران مالی اختیار محدود ہو جائے گا۔
گلوبس کے مطابق 2024 کے آخر تک اسرائیل کا قرض تقریباً 1 اعشاریہ 3 کھرب شیکل (Shekel) تک پہنچ گیا، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 18 فیصد اضافہ ہے۔
غزہ کے خلاف نسل کشی کی جنگ کے آغاز سے سات اکتوبر 2023 سے اسرائیلی وزارتِ مالیات نے جنگی اخراجات کی مالی معاونت کے لیے 500 ارب شیکل (Shekel) نئے قرضے لیے ہیں۔
بجٹ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قرض میں توسیع کی وجہ جنگ کی غیر معمولی بھرتی کی ضروریات، اس کا جاری رہنا اور شدت اختیار کرنا ہے، جبکہ خطرے کا پریمیم بڑھنے اور کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کے باعث نئے اور موجودہ قرضوں پر سود کی لاگت بڑھ گئی ہے۔
وزارتِ مالیات کا تخمینہ ہے کہ 2025 کے آخر تک قرض کا تناسب مجموعی ملکی پیداوار (GDP) کے مقابلے میں 68 سے69 فیصد ہو جائے گا، جبکہ 2024 میں یہ تناسب 67 اعشاریہ 9 فیصدتھا۔
ساتھ ہی یہ خبردار کیا گیا ہے کہ جنگ سے پہلے کی سطح (2022 میں 60 فیصد) پر واپس آنا تقریباً ایک دہائی لے سکتا ہے، بشرطیکہ نئے بحران پیدا نہ ہوں۔
اسرائیلی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر 2026 میں خسارہ 4 فیصد سے زیادہ برقرار رہا تو قرض کا تناسب کم کرنا مشکل ہو جائے گا، جب تک کہ معیشت میں نمایاں ترقی نہ ہو۔
سود کی شرح … مزید مالی دباؤ
اسرائیل بینک کے مطابق حکومت پہلے سالوں میں قرضے ایسی شرح سود پر لیتی تھی، جو دو فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی تھی اور مدت 10 سال کی ہوتی تھی، جبکہ آج شرح سود تقریباً 4 فیصد کے قریب ہے، اس دوران بڑھتی ہوئی مہنگائی کا اثر عوامی قرض کے بڑے حصے پر پڑ رہا ہے۔
وزارتِ مالیات کا کہنا ہے: خسارے کو پورا کرنے اور موجودہ قرضوں کی دوبارہ مالی معاونت کے لیے نئے قرضے لینا سود کے اخراجات پر “بڑے مجموعی اثرات” پیدا کرے گا، جبکہ بڑا خسارہ مرکزی بینک کی شرح سود کم کرنے کی صلاحیت کو سیاسی دباؤ کے باوجود محدود کر رہا ہے۔
2026 کے بجٹ کو اسرائیلی ماہرینِ معیشت اور حزبِ اختلاف کی طرف سے وسیع تنقید کا سامنا ہے، خاص طور پر جب جنگ اور فوج کے بجٹ کو 112 ارب شیکل (Shekel) (35 ارب ڈالر) تک بڑھایا گیا، جبکہ کل بجٹ 662 ارب شیکل (Shekel) (205 ارب ڈالر) تھا۔
موجودہ سال کے مقابلے میں 20 ارب شیکل (Shekel) کا اضافہ، جس سے خسارہ 3 اعشاریہ 2 فیصد سے بڑھ کر 3 اعشاریہ 9 فیصد ہو گیا۔ حکومت نے 2023 سے کئی بار جنگی بجٹ بڑھایا اور اس سال یہ 140 ارب شیکل (Shekel) سے زیادہ ہو گیا، جبکہ جنگ سے پہلے یہ 60 ارب شیکل (Shekel) تھا، اس دوران سول وزارتوں کے بجٹ میں کم از کم 11 فیصد کمی کی گئی۔
بدعنوانی کا بجٹ
2026 کے بجٹ میں اسرائیلی پروپیگنڈے کے بجٹ اور قبضہ شدہ علاقوں کی بحالی کے لیے رقم 1 ارب شیکل (Shekel) سے بڑھا کر 2اعشاریہ 35ارب شیکل (Shekel) کی گئی ہے، تاکہ غزہ پر جنگ کے بعد قابض حکومت کی ساکھ بہتر ہو۔بجٹ میں 725 ملین شیکل (Shekel) مختص کیے گئے ہیں، جو تین سال کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے میں فوجی کارروائیوں، فوجی گاڑیوں کی حفاظت، سڑکوں کی تباہی، اسرائیلی فوجی اڈوں اور نوآبادیاتی منصوبوں کے قیام کے لیے استعمال ہوں گے۔
غزہ پر جنگ سے پہلے قبضہ جمانے والی فوج کا بجٹ 65 ارب شیکل (Shekel) تھا، یعنی 20 ارب ڈالر سے زائد۔حزبِ اختلاف کے سربراہ یائیر لبید نے بجٹ کو بدعنوانی کا بجٹ اور فوجی خدمت سے گریز کے لیے فنڈنگ قرار دیا اور کہا کہ یہ 60 ارب شیکل (Shekel)کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
جو ہریڈی کمیونٹی کے فوجی خدمت سے گریز کی وجہ سے آیا اور اس کا بوجھ اسرائیلی شہریوں پر ٹیکس کی شکل میں آیا۔
لبید نے مزید کہا:ہم اس کو اگلی حکومت میں درست کریں گے اور قومی ترجیحات کے نئے بجٹ کی منظوری دیں گے، جس میں پیسہ بدعنوان افراد اور فوجی خدمت سے گریز کرنے والوں سے لے کر محنت کش، ٹیکس دینے والے اور فوجی خدمت انجام دینے والوں کو منتقل کیا جائے گا۔
اسرائیلی اقتصادی صحافت کے مطابق حکومت کے اخراجات میں اضافہ، خسارہ اور قرض میں اضافہ اقتصادی اشاریوں میں مزید کمی کا سبب بن سکتا ہے اور یہ اسرائیل کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
مشترکہ مضمون میں سابقہ اسرائیل بینک کے گورنرز، کارنیٹ فلوگ اور یعقوب فرانکل نے خبردار کیا کہ جنگ کا جاری رہنا اور قبضہ کی طویل مدتی منصوبہ بندی اسرائیلی معیشت کی مضبوطی اور عوام کی فلاح و بہبود کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔