مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
ایک باخبر مصری ذریعے نے انکشاف کیا ہے کہ آٹھ عرب اور اسلامی ممالک کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ سے متعلق منصوبے پر مکمل عمل درآمد کی ضرورت پر جاری مشترکہ بیان دراصل قاہرہ اور دوحہ کی ہم آہنگ اور ہنگامی سفارتی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ یہ مشاورات اس وقت تیز ہوئیں جب مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی قطر پہنچے اور دونوں ملکوں نے شرم الشیخ کے طے شدہ راستے کو بچانے کے لیے مسلسل رابطے کیے۔
ذرائع کے مطابق مصر اور قطر غزہ معاہدے کے بنیادی ثالث ممالک نے گذشتہ دنوں ’’حقیقی انہدام کے خطرے‘‘ کو شدت سے محسوس کیا۔ یہ خطرہ قابض اسرائیل کی واضح ہٹ دھرمی، معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد سے انکار اور مرحلہ دوم کو مسخ کرنے کی کوششوں کے باعث بڑھا۔ خاص طور پر ایک طرفہ طور پر معبر رفح کو کھولنے کی تجویز اور غزہ سے مکمل انخلا کو مؤخر کرنے کی اسرائیلی کوششیں اس خوف کا سبب بنیں۔
ذرائع نے بتایا کہ یہ مشترکہ سفارتی سرگرمی اس خدشے کے تحت شروع کی گئی کہ ٹرمپ اور قابض اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی اس ماہ کے آخر میں ہونے والی ملاقات سے قبل معاہدے کی بعض دفعات کو تبدیل کرنے یا ان کی نئی تشریحات مسلط کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ قاہرہ اور دوحہ نے اسے شرم الشیخ میں قائم ہونے والے اتفاق رائے کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیا۔
ذرائع نے مزید وضاحت کی کہ مذکورہ مشترکہ بیان اسی ملاقات سے قبل جاری کیا گیا تاکہ کسی بھی ممکنہ امریکی اسرائیلی سمجھوتے کو روک دیا جائے جو مرحلہ دوم کو اس کے طے شدہ ڈھانچے کے خلاف تبدیل کر سکتا ہو۔ آٹھ ممالک جنہوں نے یہ بیان جاری کیا تھا، یعنی مصر، اردن، قطر، سعودی عرب، امارات، ترکیہ، انڈونیشیا اور پاکستان، اپنے آپ کو اس منصوبے کے اصل شراکت دار سمجھتے ہیں اور اپنے کردار کو نظر انداز کیے جانے کو قبول نہیں کرتے۔
ذرائع کے مطابق قاہرہ اور دوحہ نے گذشتہ ہفتوں میں قابض اسرائیل کی خطرناک چالوں پر گہری نظر رکھی۔ ان میں رفح کراسنگ کو صرف ایک سمت میں چلانے کی کوشش اور غزہ کے بعض علاقوں سے انخلا میں تاخیر کی اطلاعات شامل ہیں۔ ذرائع نے ان اقدامات کو امریکی منصوبے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2803 کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔
مشترکہ بیان کا مقصد منصوبے کی سیاسی اور قانونی اساس کو مضبوط کرنا تھا۔ اس میں واضح کیا گیا کہ مرحلہ دوم کو کسی بھی ترمیم کے بغیر اصل شکل میں نافذ کیا جانا چاہیے۔ آٹھ ممالک نے امریکہ کو یہ دو ٹوک پیغام دیا کہ منصوبے کے ڈھانچے میں کوئی بھی تبدیلی شرم الشیخ کے بین الاقوامی اور علاقائی اتفاق رائے سے انحراف تصور کی جائے گی۔
ذرائع نے آخر میں کہا کہ آنے والے دنوں میں قاہرہ اور دوحہ اپنی سفارتی کوششوں میں مزید تیزی لائیں گے۔ انہیں خدشہ ہے کہ بنجمن نیتن یاھو پر بڑھتے ہوئے اندرونی دباؤ اور اس کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کی ہٹ دھرمی مرحلہ دوم کو مکمل طور پر ناکام بنا سکتی ہے، بشرطیکہ امریکہ اس نازک مرحلے پر واضح دباؤ نہ ڈالے۔