غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
فلسطینی میدان میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال ایک بار پھر اس حقیقت کو نمایاں کر رہی ہے کہ قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ کے داخلی ڈھانچے کو ازسرِنو تشکیل دینے کی ساری کوششیں بری طرح ناکام ہو رہی ہیں۔ مقامی ایجنٹ تیار کر کے قومی دھارے سے باہر ایسے گروہ کھڑے کرنے کا منصوبہ جو فلسطینیوں کے خلاف صہیونی منصوبوں کو آسان بنائیں، عملاً زمین بوس ہو چکا ہے۔
یاسر ابو شباب کے انجام کے ساتھ ہی اس اسرائیلی منصوبے کے ڈھیر ہونے کے آثار مزید واضح ہو گئے ہیں جس کے ذریعے صہیونی قیادت غزہ میں ایسے مقامی کارندے کھڑا کرنا چاہتی تھی جو میدان میں اس کے لیے نئے حقائق مسلط کر سکیں۔
قابض اسرائیل کا خطرناک ترین منصوبہ گرا
ڈاکٹر ایاد القرا نے کہا کہ یاسر ابو شباب کے انجام کے مختلف بیانیے جو بھی ہوں مگر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ قابض اسرائیل کا وہ منصوبہ ناکام ہو گیا جس کے تحت وہ غزہ کے اندر مقامی ایجنٹوں کا ماڈل تیار کر رہا تھا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ قابض اسرائیل نے حالیہ عرصے میں ایسے گروہ کھڑی کرنے کی کوشش کی جو قومی اتفاق رائے سے باہر رہ کر قابض قوت کے لیے نئی صورت حال پیدا کریں۔ صہیونی بیانیے میں اسے بنجمن نیتن یاھو کی جانب سے ’’غیر قومی علاقے‘‘ جیسی گمراہ کن اصطلاحات کے ذریعے پیش کیا گیا۔
القرا نے بتایا کہ یہ منصوبہ تین بنیادی عوامل کے باعث لمحوں میں بکھر گیا۔ اول: اس کے لیے کوئی سماجی حمایت موجود نہیں تھی۔ دوم: فلسطینی عوام اور قبائل نے کسی بھی متبادل اتھارٹی کی کوشش کو مسترد کر دیا۔ سوم: فلسطینی مزاحمت نے ہر اُس ڈھانچے کو مسمار کر دیا جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ابو شباب کا انجام کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک پورے راستے کا انہدام ہے جس پر چل کر قابض اسرائیل غزہ کو مقامی گماشتوں کے ذریعے نئے سانچے میں ڈھالنا چاہتا تھا۔ آخر میں انہوں نے واضح کیا کہ پیغام بالکل صاف ہے۔ غزہ تقسیم نہیں ہو سکتا۔ فلسطینی قومی ماحول اتنا مضبوط ہے کہ کوئی دراندازی اسے نہ توڑ سکتی ہے نہ اس کی بنیادیں ہلا سکتی ہے۔ غداری پر کھڑے منصوبے انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی مٹی میں مل جاتے ہیں۔
بدترین ناکامی
سیاسی تجزیہ کار عادل شدید نے کہا کہ یہ واقعہ ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ قابض اسرائیل فلسطینی معاشرے کی اصل ساخت اور اس کے شعور کو کبھی سمجھ ہی نہیں سکا، خصوصاً غزہ کو جو ایک مضبوط سماجی بندھن اور بے مثال قومی بیداری رکھتا ہے اور باہر سے مسلط کردہ کسی مصنوعی ڈھانچے کو قبول نہیں کرتا۔
انہوں نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار کو بتایا کہ مقامی گماشتے پیدا کرنے کی اسرائیلی کوشش ہمیشہ اس حقیقت سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے کہ انہیں عوامی زمین، سماجی جواز اور قومی قبولیت ہی حاصل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ منصوبے لمحوں میں گر جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ قابض اسرائیل ایسے کارندوں کو ان کے ’’کام‘‘ ختم ہوتے ہی خود ہی چھوڑ دیتا ہے، جس کے بعد ان پر بھروسا کرنا ابتدا ہی سے ایک ہاری ہوئی بازی کے مترادف ہوتا ہے۔
شدید نے کہا کہ اس ماڈل کا گر جانا اس پیغام کو مزید مضبوط کرتا ہے کہ غزہ کوئی ایسی جگہ نہیں جسے سیاسی یا سماجی طور پر دوبارہ ’’انجینئر‘‘ کیا جا سکے۔ یہ ایک فولادی ماحول ہے جو اپنی وحدت اور اپنے داخلی نظم پر کسی کو ہاتھ ڈالنے نہیں دیتا۔
گہرائی یافتہ شعور
احمد الحیلہ نے کہا کہ یاسر ابو شباب نامی ایجنٹ کے انجام نے فلسطینی قومی شعور کی گہرائی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ یہ واقعہ کس نے کیا بلکہ وہ پیغام ہے جو یہ پورے سماج کو دے رہا ہے۔
انہوں نے ہمارے نامہ نگار کو بتایا کہ حالیہ پیش رفتیں ثابت کرتی ہیں کہ قابض اسرائیل فلسطینی عوام میں قبولیت نہ رکھنے والی کوئی متبادل اتھارٹی وجود میں لانے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ ایسے کسی بھی مصنوعی، کارکردگی پر مبنی مقامی ڈھانچے کو فلسطینی عوام کا قومی شعور فوری طور پر رد کر دیتا ہے۔
الحیلہ نے زور دے کر کہا کہ ابو شباب کے انجام پر عوامی خوشی کے مناظر اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ ایسے عناصر ہمیشہ غیر معمولی اور ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں۔ فلسطینی عوام اپنی قومی قیادت پر قائم رہتے ہیں اور قابض اسرائیل کی جانب سے بنائے گئے کسی بھی سیاسی یا سماجی سوراخ کو قبول نہیں کرتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی کسی ایسی اتھارٹی کو قبول نہیں کرتا جو قابض ٹینکوں کے ذریعے لائی جائے یا اس کے مفاد میں کام کر رہی ہو۔ فلسطینی معاشرہ مضبوط قومی قوتِ مدافعت رکھتا ہے جو کسی بھی جعلی حقیقت کو مسلط ہونے نہیں دیتا۔