مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
مصر نےواضح الفاظ میں تردید کی ہے کہ اس نے قابض اسرائیل کے ساتھ رفح کراسنگ کو صرف ایک طرفہ طور پر غزہ کے باشندوں کے خروج کے لیے کھولنے پر کوئی معاہدہ کیا ہے۔ یہ اعلان مصری صدارتی ادارے سے منسلک جنرل اتھارٹی فار انفارمیشن کی جانب سے سامنے آیا ہے۔
اتھارٹی نے ایک باخبر حکومتی ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ اگر کراسنگ کھولنے پر اتفاق ہوا تو آمد و رفت دونوں سمتوں میں ہوگی، جیسا کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے میں درج ہے۔
یہ تردید اس اعلان کے جواب میں سامنے آئی ہے جو قابض اسرائیل کی جانب سے کیا گیا تھا کہ آنے والے دنوں میں رفح کراسنگ کھول دی جائے گی تاکہ فلسطینیوں کو غزہ سے مصر کی طرف نکلنے کی اجازت دی جا سکے۔ یہ اعلان فلسطینی علاقوں میں قابض حکومت کی کوآرڈینیشن یونٹ ’کوگاٹ‘ کی جانب سے جاری بیان میں کیا گیا تھا۔
قابض اتھارٹی کے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کن مخصوص فلسطینیوں کو غزہ سے نکلنے کی اجازت ملے گی اور کن پر پابندی ہوگی۔
مزید یہ کہ بیان میں کہا گیا کہ قابض اسرائیل غزہ سے نکلنے کے خواہش مند فلسطینیوں کی منتقلی کے لیے مصر کے ساتھ ہم آہنگی سے کام کرے گا اور یہ عمل یورپی یونین کے ایک مشن کی نگرانی میں انجام پائے گا۔ منتقلی کی خواہش رکھنے والوں کو “اسرائیلی سکیورٹی منظوری” درکار ہوگی، البتہ رفح کراسنگ کھولنے کی کوئی تاریخ بیان میں شامل نہیں کی گئی۔
مصری تردید کے بعد صہیونی چینل 12 نے ایک اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ قابض اسرائیل نے غزہ کے رہائشیوں کے غزہ سے باہر نکلنے کے لیے کراسنگ کھول دیے ہیں اور اگر مصر غزہ سے آنے والوں کو قبول نہیں کرنا چاہتا تو یہ اس کی اپنی مشکل ہے۔
سیز فائر معاہدے میں واضح طور پر درج ہے کہ رفح کراسنگ کو مریضوں کے انخلا اور عام سفر کے لیے دونوں طرف سے کھولا جائے گا۔ تاہم ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایک اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ تمام فلسطینی جنہیں غزہ چھوڑنے کی ضرورت ہے وہ کراسنگ کے ذریعے نکل سکیں گے بشرطیکہ مصر انہیں قبول کر لے، لیکن غزہ واپس جانے والوں کے لیے کراسنگ نہیں کھولی جائے گی۔
اس عہدیدار نے مزید کہا کہ یورپی یونین کو کراسنگ کھولنے سے قبل کچھ تکنیکی و لاجسٹک انتظامات مکمل کرنے ہوں گے۔
مئی سنہ 2024 ءسے قابض اسرائیل رفح کراسنگ کے فلسطینی حصے پر مکمل تسلط جما چکا ہے۔ اس دوران اس نے کراسنگ کی عمارتیں تباہ کر دیں، انہیں نذرِ آتش کیا اور فلسطینی شہریوں، بالخصوص مریضوں، کو باہر سفر کرنے سے روک کر ایک بڑے انسانی بحران کو جنم دیا۔
معاہدے کے مطابق گذشتہ اکتوبر میں کراسنگ دوبارہ کھلنی تھی لیکن قابض اسرائیل نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔
اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجاریک نے حال ہی میں بتایا کہ غزہ کے سولہ ہزار پانچ سو سے زائد مریض اب بھی زندگی بچانے والی فوری طبی سہولیات کے لیے غزہ سے باہر منتظر بیٹھے ہیں۔
سیز فائر کا اصل مقصد اس جنگ کو روکنا تھا جس نے غزہ میں تباہی کی وہ تصویر رقم کی ہے کہ اب تک ستر ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ اکہتر ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچے ہیں۔ لاکھوں بے گھر اہلِ غزة شدید محاصرے، فاقہ کشی اور تباہ حال شہروں میں بکھری لاشوں کے سائے تلے زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔