Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

حماس

عبداللہ غازی حمد کی قربانی، ایثار کی نئی مثال

غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

غزہ ثبات اور آزادی کی وہ عظیم دھرتی جہاں ہر روز نئی داستانیں جنم لیتی ہیں۔ ایسی داستانیں جن میں ملتِ فلسطین کا ہر فرد، ہر نوجوان اور ہر مزاحمت کار کھڑا ہے۔ یہی سرزمین اپنے ثابت قدم اور صبر آزما عوام کے ساتھ ساتھ اُن مجاہدین اور قائدین کی بھی گواہ ہے جو اپنی اولادوں سمیت سب سے آگے محاذِ کارزار میں کھڑے ہوتے ہیں۔

ان ہی نئی داستانوں میں ایک تازہ باب عبداللہ غازی حمد کا ہے۔ وہ نوجوان جو حماس کے سیاسی رہنما اور اس کے مذاکراتی وفد کے رکن غازی حمد کا بیٹا تھا۔ آٹھ ماہ تک رفح میں سخت محاصرے کے بعد وہ اپنے ساتھی مجاہدین کے ساتھ شہادت کے مرتبے پر فائز ہوا۔

سوچنے کے لیے ایک لمحہ

عبداللہ کی شہادت محض ایک سیاسی یا عسکری خاندان کے فرد کا کھو جانا نہیں۔ یہ اس بڑے سوال کو پھر سے زندہ کرتی ہے کہ وہ قائد کیسا ہوتا ہے جو دوسروں کے بیٹوں سے پہلے اپنی اولاد کو صفِ اول میں کھڑا کرتا ہے۔ ایسا منظر ہر اس قدر کو آزماتا ہے جو قیادت جنگ اور آگ کے گھیرے میں دعویٰ کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ایک قائد کس کیفیت میں رہ کر جنگ کی قیادت کرتا ہے جبکہ اُسے علم ہو کہ اس کا اپنا بیٹا زیر زمین محاذوں میں دشمن کے نرغے میں ہے اور شاید لوٹ کر نہ آئے۔

غازی حمد ہفتوں تک قابض اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کی میز پر بیٹھتے رہے جبکہ اس بوجھ کو اپنے سینے میں چھپائے ہوئے تھے۔ وہ ان دوروں میں شامل رہے جن کا موضوع رفح کے محصور مجاہدوں کی قسمت تھا جن میں ان کا اپنا بیٹا بھی شامل تھا۔ ہر اجلاس میں وہ یہ جانتے ہوئے داخل ہوتے تھے کہ جس فیصلے کی تشکیل میں وہ شریک ہیں اس کا پہلا اثر شاید ان کے اپنے بیٹے پر پڑے۔ یہ انسانی پہلو اس تجربے کو اور زیادہ بھاری اور دل گرفتہ بنا دیتا ہے۔

ایک نادر مثال

سیاسی تجزیہ کار محمود العیلہ اس منظرنامے کو مذاکرات اور تنازعات کے حل کے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کی جن جنگوں اور سفارتی مراحل کا انہوں نے مطالعہ کیا ان میں کہیں ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ ایک مذاکرات کار اپنے بیٹے کے محاصرے اور ممکنہ انجام سے متعلق اجلاسوں میں شامل ہو اور سامنے وہی دشمن ہو جو اس محاصرے کا ذمہ دار ہو۔

العیلہ کے مطابق غازی حمد کی یہ صلاحیت کہ وہ ذاتی جذبات اور ذمہ داریوں کے بیچ واضح حد کھینچ کر کھڑے رہے، ایک نادر مثال ہے۔ وہ نہ کبھی مائل بہ نرمی ہوئے نہ کوئی خصوصی رعایت طلب کی اور نہ اپنی ذاتی آزمائش کو باقی مجاہدین کی قسمت پر اثر انداز ہونے دیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سوال اٹھتا ہے آخر وہ کون سا جذبہ ہے جو ایک باپ کو اپنے ذاتی زخم سے اوپر اٹھ کر قوم کی بھلائی کا فیصلہ کرنے دیتا ہے؟

عبداللہ کی شہادت کی خبر جب اس کے والد تک مذاکرات کے بیچ پہنچی تو اس جنگ کے سب سے کڑے اور سفاک ترین لمحات میں سے ایک لمحہ سامنے آیا۔ یہ محض فرد کا کھو جانا نہیں تھا بلکہ وہ دکھ تھا جو غزہ کے کئی مزاحمتی قائدین بارہا جھیل چکے ہیں۔

محمود العیلہ اسی حقیقت کو سمیٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو شخص اس بات سے انکار کرے کہ غزہ کے قائدین نے بے مثال ایثار کی مثالیں قائم کی ہیں وہ یا تو حقیقت سے ناواقف ہے یا قومی احساس سے خالی۔

یہ سارا معاملہ محض حماس سے سیاسی اتفاق یا اختلاف کا نہیں بلکہ اس بات کا ہے کہ جنگ اور نسل کشی کی بھٹی میں قیادت کی اصل شکل کیا ہوتی ہے۔ وہ صورت جس میں ذاتی نقصان قیادت کی ذمہ داری کے سامنے ماند پڑ جاتا ہے۔

خاندانی ذرائع کے مطابق عبداللہ حمد مہینوں تک ساتھی مزاحمت کاروں کے ساتھ رفح کے زیر زمین محاذ پر گھِرا رہا اور پھر شہید ہو گیا۔

اس کے بھائی محمد حمد نے اس کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ “میرا پیارا بھائی عبداللہ شہید ہو گیا۔ وہ آگے بڑھ کر لڑا پیچھے نہ ہٹا۔ وہ رفح کی سرنگوں میں محاصرہ کیے ہوئے دشمن سے لڑتا رہا اور اپنے رب کے حضور سرخرو اور راضی ہو کر پہنچ گیا”۔

وجہِ امتیاز

بلاگر محمد شکری ایک اور زاویہ بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق عبداللہ کی شہادت کا امتیاز صرف اس وجہ سے نہیں کہ وہ ایک قائد کا بیٹا تھا کیونکہ غزہ کی جنگ میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں رہی۔ اصل امتیاز اس قیادت کی نوعیت میں ہے جو اپنی اولاد، اپنا گھر اور اپنی ہر متاع ایک پلڑے میں رکھتی ہے اور قوم، اس کے اسیران اور مقدسات کا مفاد دوسرے پلڑے میں اور پھر فیصلہ ہمیشہ قوم کے حق میں کرتی ہے۔

شکری کا کہنا ہے کہ رفح کا محاصرہ اس امر کا اعلان تھا کہ اس جنگ کو روکنا ہے اور اسے دوبارہ نہیں دہرانا چاہیئے خواہ اس کے لیے کچھ بھی قربان کیوں نہ کرنا پڑے۔ غازی حمد اس اجتماعی ارادے کا حصہ تھے۔ اس طرز کی قیادت ہمیشہ نہیں ملتی اس لیے چاہے سیاسی اختلاف کتنے ہی کیوں نہ ہوں اس قربانی کا احترام ضروری ہے۔

ایک کٹھن حقیقت

علی ابو رزق اس جنگ کی ایک تلخ حقیقت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذاکراتی وفد کے ایک رکن کے فرزند عبداللہ غازی حمد کی رفح میں شہادت کی توثیق کے بعد ایک عجیب اور منفرد منظر سامنے آیا۔ اس جنگ میں صرف اسی وفد کے تین ارکان کے بیٹے شہید ہوئے:
وفد کے سربراہ ہمام خلیل الحیہ کے بیٹے، دوسرے رکن نعیم باسم نعیم کے بیٹے اور تیسرے رکن عبداللہ غازی حمد کے بیٹے ہیں۔

یہ شہادتیں ایک ایسی تصویر دکھاتی ہیں جو شاذ ہی دکھائی دیتی ہے۔ ایسی قیادت جو روز دشمن کی گولہ باری کا سامنا کرتی ہے، جانتی ہے کہ ان کا اپنا نقصان بھی اسی جنگ کا حصہ ہوگا اور پھر بھی وہ ڈٹے رہتے ہیں۔ دنیا کے اکثر معاشروں میں قیادت نعرے تو بلند کرتی ہیں مگر اپنے بچوں کو جنگ سے دور رکھتی ہیں۔ مگر غزہ اور غرب اردن میں ایک مختلف تجربہ جنم لیتا ہے جہاں قائدین کے بیٹے بھی انہی مورچوں میں کھڑے ہوتے ہیں جہاں کیمپوں اور دیہات کے نوجوان کھڑے ہیں۔ یہی وابستگی کی وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے عوام حماس اور اس کی قیادت کے گرد مجتمع رہتے ہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan