غرب اردن ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ریلیف اور ورک ایجنسی “انروا” نے بتایا ہے کہ قابض اسرائیلی جارحیت کے باعث رواں سال کے آغاز سے اب تک شمالی غرب اردن کی پناہ گزین کیمپوں سے 32 ہزار فلسطینی جبراً بے گھر ہیں اور تاحال اپنے گھروں میں واپس نہ جا سکے۔
انروا کے غرب اردن میں ڈائریکٹر رولانڈ فریڈرک نے کہا کہ جنین، طولکرم اور نور شمس کیمپوں کے رہائشی آج بھی اپنے گھروں سے باہر دربدر ہیں۔ یہ کیمپ قابض اسرائیل کے اکیس جنوری کے حملے کے بعد مکمل طور پر خالی کرا دیے گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کیمپ جو کبھی زندگی سے بھرپور رہتے تھے آج قابض اسرائیلی تباہ کاریوں کے بعد “ویران شہر” بن چکے ہیں۔
فریڈرک نے وضاحت کی کہ قابض اسرائیلی فوج نے گذشتہ چند دنوں کے دوران “فوجی ضروریات” کے نام پر نئے انہدامی احکامات جاری کیے ہیں جن میں جنین کیمپ کی بارہ عمارتوں کی مکمل مسماری اور گیارہ عمارتوں کی جزوی تباہی شامل ہے۔ ان احکامات پر عمل جمعہ کے روز شروع کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ برس مارچ اور جون کے مہینوں میں قابض اسرائیل نے اجتماعی انہدام کے احکامات جاری کیے جن کا نشانہ جنین کیمپ کی ایک سو نوے سے زائد عمارتیں بنیں۔ اس کے علاوہ گذشتہ فروری میں قابض اسرائیلی فوج نے بیس عمارتوں کو منظم دھماکوں سے تباہ کر دیا۔
اقوام متحدہ کے اس اعلیٰ اہلکار نے کہا کہ یہ “منظم تباہی” بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اس کا واحد مقصد قابض اسرائیلی فوج کا کیمپوں پر طویل المدتی تسلط کو مضبوط بنانا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ان علاقوں کی فوری ازسرِنو تعمیر ضروری ہے اور قابض اسرائیلی حکام کو فلسطینیوں کو اپنے گھروں میں واپسی کی اجازت دینی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جنین کیمپ پر ہونے والا یہ حملہ بعد میں طولکرم اور نور شمس کیمپوں تک پھیل گیا جو کہ گذشتہ دو برسوں سے جاری غرب اردن میں صہیونی جارحیت کی بڑھتی ہوئی لہر کا حصہ ہے۔ یہ سب کچھ اس نسل کشی کی جنگ کے متوازی ہے جو قابض اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر سات اکتوبر سنہ 2023 سے مسلط کر رکھی ہے۔
فلسطینی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق غرب اردن میں قابض اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک ایک ہزار تریاسی سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، تقریباً گیارہ ہزار زخمی ہیں اور بیس ہزار پانچ سو سے زیادہ فلسطینی گرفتار کیے جا چکے ہیں۔