غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” کے رہنما خلیل الحیہ نے امت مسلمہ پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی فلاحی تنظیموں اور علماء کے ذریعے فلسطینی عوام کی مزاحمت کو مضبوط کریں اور غزہ کی فوری تعمیر نو میں کردار ادا کریں تاکہ یہ خطہ ’’امت کے لیے آزاد فلسطین کی راہ میں ایک ” مضبوط قلعہ‘‘ کی حیثیت برقرار رکھ سکے۔
لاہور میں مینار پاکستان کے مقام پر منعقدہ جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماع عام سے ویڈیو خطاب میں الحیہ نے القدس کی آزادی اور مسجد اقصیٰ کو لاحق خطرات سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ قابض اسرائیل کی بڑھتی ہوئی یلغار مسجد اقصیٰ کی زمانی و مکانی کی تقسیم مسلط کرنے کی کوششیں سنگین تشویش کا باعث ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ معرکہ ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ نے عالمی شعور میں نمایاں تبدیلی پیدا کی ہے، صہیونی بیانیے کو توڑنے اور فلسطین کے ساتھ بین الاقوامی یکجہتی کے دائرے کو وسعت دینے میں اہم کردار ادا کیا، اس کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے درمیان متحدہ مزاحمتی موقف کو بھی تقویت ملی۔
الحیہ کی یہ تقاریر ایک ریکارڈ شدہ خطاب کی شکل میں پیش کی گئیں جو تحریک حماس کی جانب سے پاکستان میں جماعت اسلامی کے اجتماع عام میں سنائی گئی۔ یہ اجتماع لاہور کے مینار پاکستان کے سامنے منعقد ہوا اور اس میں کئی مسلم ممالک کے علماء، رہنما اور سیاسی شخصیات شریک ہوئیں۔
الحیہ نے اپنے خطاب میں پاکستان کے قیادت، عوام اور فوج کے حوالے سے حماس کے گہرے احترام پر شکریہ ادا کرتے ہوئے بانی پاکستان محمد علی جناح کے فلسطینی حق کے ساتھ حمایت اور قابض اسرائیل کو فلسطین کی زمین پر کوئی قانونی حیثیت نہ دینے کے موقف کو یاد دلایا۔ اس کے ساتھ انہوں نے علامہ محمد اقبال کے کردار کو بھی سراہا جو امت کی اسلامی شناخت کو مضبوط کرنے اور اسے اس کے حقوق سے جوڑنے میں نمایاں رہ نماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔
الحیہ نے کہا کہ فلسطین ’’اسلامی وقف سرزمین ہے اور پوری امت کی ملکیت ہے‘‘۔ اس کی آزادی اور القدس و الاقصیٰ کی نصرت میں پاکستان کے تاریخی کردار ضرورت ہے۔
خلیل الحیہ نے دوبارہ زور دیا کہ حماس ’’کسی صورت میں صہیونی ریاست کو تسلیم نہیں کرے گی‘‘ ۔ فلسطینی عوام اور مزاحمت نے قابض اسرائیل کے تمام عزائم جو اس نے غزہ پر جارحیت کے آغاز سے اعلان کیے تھے ناکام بنا دیے ہیں۔
اسی دورا ن حماس کے وفد کی قیادت مروان ابو راس نے عالمی اتحاد مسلم علما کے صدر علی القرہ داغی، مختلف مسلم ممالک کی جماعتوں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، نیز کئی کشمیری قیادت سے بھی ملاقاتیں کی گئیں۔