غزہ ۔مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
قابض اسرائیل کی سفاک بمباری نے معاذ کا گھر اجاڑ دیا، چھ سالہ یزن ملبے تلے زندہ ملا مگر ماں، باپ اور ننھی بہن ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔
تم یزن کو دیکھو تو وہ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلتا، ہنستا، دوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کی شوخی اور بے پناہ حرکتیں دیکھ کر یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ ایک عام سا بچہ ہے جو اپنی بے فکری بھری دنیا میں خوش اور آزاد زندگی گزار رہا ہے۔
مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
’’اکلوتا زندہ بچ جانے والا‘‘
یزن معاذ غراب کو غزہ کے خلاف نسل کشی کی اس جنگ میں اسے وہ المناک لقب ملا جسے سن کر کلیجہ پھٹ جائے ’’واحد زندہ بچ جانے والا‘‘۔
بیس جولائی سنہ 2024ء کی شام قابض اسرائیل کے ایک اچانک فضائی حملے نے اس کے گھر کو نشانہ بنایا۔ ایک پل میں اس کا پورا خاندان خون میں نہلا دیا گیا۔ اس کا والد معاذ، والدہ علا اور ننھی بہن فرح موقع پر شہید ہو گئے۔یزن ملبے کے نیچے زخمی ملا، اس کی بہن بالکل پاس ہی دم توڑ چکی تھی۔
یزن سنہ 2017 ءمیں پیدا ہوا، یعنی نئی نسل کشی کی جنگ سے تقریباً چھ سال پہلے۔ مگر اس کے چھوٹے سے بچپن نے بھی امن کی کوئی صبح نہیں دیکھی۔ اس نے سنہ 2021ء کی جنگ بھی دیکھی اور وہ تمام خونریز کارروائیاں جن میں قابض اسرائیل کی جنگی مشین نے غزہ کے محصور عوام پر لمحہ بھر کے لیے بھی سفاکیت روکنے کی زحمت نہیں کی۔
یزن کا گھرانہ… محض ایک نمبر نہیں
یزن کا چھوٹا سا خاندان ان بے شمار خاندانوں میں محض ایک عدد نہیں جنہیں قابض اسرائیل نے اپنی مجرمانہ جنگ میں صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔
یہ ایک زندہ، محنتی اور خوابوں سے بھرپور گھرانہ تھا جو اپنے بچوں کے لیے بہتر مستقبل چاہتا تھا۔ جہاں بھی جاتے محبت اور خوشبو بکھیرتے اور بدترین حالات کے باوجود اپنی زندگی سنوارنے کی کوشش کرتے۔
اس کے والد معاذ ایک نرم دل اور اعلیٰ اخلاق کے حامل نوجوان تھے۔ اسلامی یونیورسٹی غزہ سے طب میں گریجوایشن کیا مگر روزگار نہ ملا۔ انہوں نے حکومتی اور نجی دونوں طرح کے طبی مراکز میں بے شمار رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔ جب مناسب نوکری نہ ملی تو خاندان کی دکان میں کام شروع کر دیا تاکہ گھر چل سکے۔
وہ اپنی تعلیم آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے تھے اور ان کی اہلیہ علا انہیں بھرپور حوصلہ دیتی تھیں۔
علا… ایک باہمت اور باصلاحیت ماں
علا حد درجہ محنتی اور شاندار کارکردگی رکھنے والی معلمہ تھیں۔ تعلیم اور عملی زندگی دونوں میں نمایاں رہیں۔
وہ اپنے بچوں یزن اور فرح کے مستقبل کا ہمیشہ سوچتی رہتی تھیں اور چاہتی تھیں کہ وہ مضبوط، باوقار اور علم سے روشن زندگی گزاریں۔
رشتہ دار اور دوست آج بھی کہتے ہیں کہ علا جہاں جاتی تھیں وہاں محبت کا ایسا نقش چھوڑ جاتی تھیں جو کبھی نہیں مٹتا۔
یزن… مٹی میں دبا ہوا خواب
اب یزن اپنے دادا دادی اور چچا کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ پہلی جماعت میں صرف ایک ماہ ہی پڑھ سکا تھا۔ آج وہ تیسری جماعت کے قریب ہے مگر تعلیم کی وہ بنیادی سیڑھیاں اس سے چھن چکی ہیں جو ایک بچے کو فطری طور پر ملنی چاہئیں۔
غزہ کے بچے مسلسل تیسرے سال تعلیم سے محروم ہیں کیونکہ قابض اسرائیل نے بیشتر سکول تباہ کر دیے ہیں۔
دادی اس کی ماں بن کر اس کی رہنمائی کرتی ہیں۔ اس کی شرارتیں اور بے پناہ چستی انہیں تھکا دیتی ہیں، لیکن وہ بضد ہیں کہ یزن اپنی پڑھائی پوری کرے اور اس خلا کو بھر سکے جو جنگ نے اس کی زندگی میں پیدا کر دیا ہے۔
یتیمی کا بوجھ… وقت کے ساتھ گہرا ہوتا دکھ
یزن ابھی چھوٹا ہے۔ کھیل کود اس کے غموں کو کچھ دیر کے لیے بھلا دیتے ہیں، لیکن آنے والے برس اس پر یتیمی کی گہرائی کھولیں گے۔ تب وہ شاید اچھی طرح سمجھ پائے گا کہ ایک ساتھ ماں باپ اور بہن کھو دینے کا دکھ کیسا ہوتا ہے۔
خاندان چاہتا ہے کہ یزن کبھی ڈاکٹر بنے یا ایک ذہین معلم، بالکل ویسے جیسے اس کی ماں چاہتی تھی۔ مگر وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ غزہ کے موجودہ حالات میں یہ سفر انتہائی کٹھن اور صبر آزما ہے۔
کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی
یزن کی زندگی کی داستان ابھی اپنے ابتدائی صفحات میں ہے۔ آنے والے دن اس میں مزید باب لکھیں گے۔ مگر اس کے خاندان کی داستان، جسے قابض اسرائیل نے مٹا دیا، ضرور سنائی جانی چاہیے۔
یہ اس لیے کہ وہ محض ایک نمبر نہیں تھے…
وہ امید تھے، محبت تھے، مستقبل تھے،
اور ان کے خوابوں کو قتل کرنے والوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ یتیمی بچوں کے اندر سے بھی خواب مر جاتے ہیں۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ کہانی ابھی باقی ہے…
اور اسے وہ قوم لکھ رہی ہے جسے شکست دینا ممکن نہیں۔