غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
غزہ کی اجڑی ہوئی سر زمین پر ابھی جنگ کے زخم تازہ ہی تھے کہ ایک اور تہلکہ خیز حقیقت پردہ چاک کرتی دکھائی دینے لگی۔ اجرتی طیارے، نامعلوم واسطے، انجان منزلیں اور غزہ کے وہ بیٹے بیٹیاں جو تباہی کے بوجھ تلے دبائے گئے ان کی ہزاروں میل دور افریقی ملکوں میں منتقلی کی ہو ربا سازش۔ یہ سب کچھ خود کو ’’انسانی مدد‘‘ کہنے والے منصوبوں کے پردے میں چھپایا جا رہا تھا مگر واقعات نے بتا دیا کہ یہ کوئی خیرخواہی نہیں بلکہ غزہ کو اس کے لوگوں سے خالی کرنے کی نئی اور خوفناک چال ہے۔
عبرانی اخبار “ہارٹز” کی حالیہ تحقیق نے پردے کے پیچھے چھپی اس حقیقت کو بے نقاب کیا کہ ’’المجد‘‘ نامی تنظیم جسے انسانیت کے نام پر پیش کیا جاتا ہے، دراصل استوانیا میں رجسٹرڈ ایک کمپنی کی نقاب پوش شبیہ ہے اور اسے قابض اسرائیل اور استوانیا کی دوہری شہریت رکھنے والا شخص چلا رہا ہے۔
یہ تنظیم غزہ کے بے گھر، بے وسیلہ اور تباہ حال فلسطینیوں کو دو ہزار ڈالر کے عوض ایسے سفر پر لے جاتی رہی جس کی کوئی ضمانت، کوئی شناخت اور کوئی سمت واضح نہیں تھی۔ دلالوں کے ہاتھ میں پھنسے یہ لوگ جیسے وقت کے بھنور میں ڈال دیے جاتے ہیں۔
ایک دھوکا… ایک نسل کشی کا نیا باب
ڈاکٹر مصطفی البرغوثی نے اس عمل کو ایک ’’منظم دھوکا‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی حادثاتی کوشش نہیں بلکہ ایک گہری اور طے شدہ حکمت عملی ہے جس میں غزہ کے لوگوں کو ان کی زمین سے کاٹ کر ’’اختیاری نسلی صفائی‘‘ کے نام پر دور دھکیلا جا رہا ہے۔ جب براہ راست جنگ کے ذریعے انہیں ختم کرنا نا ممکن ٹھہرا تو اب ان کے دلوں میں بے وطنی کا خوف بھر کر انہیں رخصت کیا جا رہا ہے۔
البرغوثی نے خبردار کیا کہ یہ جال ان لوگوں کی بے بسی سے فائدہ اٹھا رہا ہے جن کے گھر ملبے کا ڈھیر ہو چکے، جن کی زندگیاں بکھر چکی ہیں اور جن کے لیے ہر سانس جدوجہد کا نام بن چکا ہے۔
راہیں بند، امیدیں مجروح اور بڑھتا خوف
اسی دوران “یدیعوت احرونوت” نے انکشاف کیا کہ یہ غزہ چھوڑنے والی بسیں قابض فوج کی نگرانی میں کرم ابو سالم تک پہنچائی گئیں اور پھر رامون ایئرپورٹ تک لائی گئیں۔ یہ کوئی انسانی کوریڈور نہیں بلکہ منظم راستہ تھا، جس میں ہر قدم پر قابض قوت کی مداخلت صاف دکھائی دے رہی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے سخت تشویش کا باعث قرار دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر ایسے راستے کھل گئے تو کل ہزاروں فلسطینی اسی طرح کے ’’خاموش خروج‘‘ کا شکار ہو سکتے ہیں، کیونکہ جب زندگی کے دروازے بند ہوتے ہیں تو انسان مجبوری کے دریچے کھولنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
فضا میں معلق لوگ… جن کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا
جوہانسبرگ ایئرپورٹ میں بارہ گھنٹے تک طیارے کے اندر محصور وہ 153 فلسطینی صرف پرواز کے نہیں بلکہ اپنی تقدیر کے بھی مسافر تھے۔ بھوک، پیاس، تھکن اور بے یقینی۔ ان کی آنکھوں میں سوال تھے، مگر جواب کوئی نہ تھا۔ نہ یہ معلوم کہ انہیں یہاں لانے والا کون ہے، نہ یہ کہ انہیں آخر لے کہاں جایا جا رہا ہے۔
انسانی مدد یا سازش کا تازہ روپ؟
جو کچھ سامنے آ رہا ہے اس سے واضح ہے کہ یہ راستے ’’خیر‘‘ کے راستے نہیں۔ یہ وہ خطوط ہیں جن پر کسی کے ہاتھ سے کھینچی گئی نئی نقشہ گری چل رہی ہے۔ غزہ کے ہر مجبور والد، ہر بے گھر ماں، ہر خوفزدہ بچے کے لیے یہ راستے امید بھی تھے اور دھوکا بھی۔
غزہ کی طرح نسلوں کو نگل جانے والی تباہی میں جب زمین پر کوئی دروازہ نہیں کھلتا، تو لوگ آسمان میں کھلنے والی کھڑکی کو بھی نجات سمجھ بیٹھتے ہیں۔ مگر یہاں ان کھڑکیوں کے پیچھے بھی ایک منصوبہ تھا اور دشمن نے ایک سازش رچا رکھی تھی، غزہ کے وجود کو ازسرنو تبدیل کرنے کی سازش، ایک نئی نکسہ کو خاموشی سے آگے بڑھانے کا ہتھکنڈہ تھا۔
خاموشی میں چھپا ہوا ’ہجرت کا حکم‘
سیاسی تجزیہ کار محمد ابو لیلیٰ کے مطابق یہ سب کچھ عالمی اور علاقائی سیاست کے خاموش بہاؤ میں شامل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ انفرادی کوششیں نہیں بلکہ ایک ایسی راہ ہموار کی جا رہی ہے جس پر چلتے ہوئے فلسطینی رفتہ رفتہ اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں اور دنیا اسے ’’اختیار‘‘ کا نام دے کر حالات سے چشم پوشی کرلے۔
ابو لیلیٰ نے کہا کہ اصل خطرہ یہ ہے کہ ان واقعات کو معمول بنایا جا رہا ہے، تاکہ کل جب کوئی فلسطینی ہجرت کرے تو اسے ’’فطری‘‘ سمجھا جائے۔ یہ وہ خاموش خطرہ ہے جو آبادی کے ڈھانچے کو بدل دیتا ہے مگر دنیا اسے دیکھ کر بھی نہیں دیکھتی۔
قابض کے نشانات ہر جگہ موجود
تجزیہ کار یاسین عزالدین کے مطابق یہ منصوبہ پوری طرح قابض اسرائیل کی پالیسیوں میں پیوست ہے۔ کوئی فلسطینی غزہ سے نکل ہی نہیں سکتا جب تک قابض قوت اس کا راستہ ہموار نہ کرے اور جب رفح کراسنگ کو بند رکھا گیا تو گویا لوگوں کے سامنے ایک ہی راستہ چھوڑا گیا۔ وہی جسے یہ مشکوک تنظیم چلا رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ خاندانوں کو پورا کا پورا باہر بھیجنے کی شرط اس بات کی علامت ہے کہ واپسی کے رشتے توڑ دیے جائیں۔ پاسپورٹ پر مہر نہ لگانا بھی اسی زنجیر کی کڑی ہے تاکہ کل جب کوئی لوٹنا چاہے تو اس کے لیے راستے گم ہو جائیں۔
عزالدین نے بتایا کہ اس پورے عمل کے گرد کچھ ایسے لوگ بھی سرگرم ہیں جو ہجرت کو ’’نجات‘‘ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ یہ نفسیاتی رکاوٹیں توڑی جا رہی ہیں تاکہ فلسطینیوں کو اپنے ہی وطن سے جدا ہونے میں کم تکلیف محسوس ہو۔