Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

خاص خبریں

غزہ کا مستقبل خطرے میں، سلامتی کونسل کی قرارداد کے بعد کیا ہوگا؟

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

فلسطینی قضیے کے گرد تیزی سے بدلتے حالات کے درمیان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایسی قرارداد منظور کی ہے جو امریکی منصوبے کے مطابق غزہ کے مستقبل کو فلسطینی قوم کی آزادانہ مرضی سے دور لے جاتی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار علاء الریماوی نے مرکزاطلاعات فلسطین کے لیے اس قرارداد کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے جس میں انہوں نے اس کے سیاسی و سکیورٹی پہلوؤں ،اقدار اور خطے میں اثر انداز ہونے والے عالمی و علاقائی عوامل پر روشنی ڈالی جنہیں وہ “غزہ کی بین الاقوامی تشکیل نو” کی کوشش قرار دیتے ہیں۔

عرب و عالمی اتفاق اور ایک نئی مرحلے کی نشانیاں

الریماوی کے مطابق اس وقت منظرنامے کی سب سے نمایاں خصوصیت عرب ممالک کا یکساں موقف ہے جو امریکی منصوبے کی حمایت کرتا دکھائی دیتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ماسکو اور بیجنگ کا ووٹنگ سے اجتناب کوئی مخالفت نہیں بلکہ ایک خاموش قبولیت ہے جو امریکہ کو قدم آگے بڑھانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ عرب موقف کے ساتھ یہ رویہ اس بات کی علامت ہے کہ عالمی قوتیں غزہ پر نئے سیاسی بندوبست مسلط کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔

الریماوی کے نزدیک یہ تبدیلی معمولی نہیں بلکہ “امریکی منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے ایک وسیع عالمی دھکا” ہے جو فلسطینی مزاحمتی قوتوں کو کئی سطحوں پر پیچیدہ سیاسی صورت حال سے دوچار کرتا ہے۔

منصوبے کا جوہر: غزہ کی نئی عالمی تشکیل

الریماوی کے تجزیے کے مطابق پیش کی گئی بین الاقوامی اسکیم تین بڑے عناصر پر قائم ہے۔

اول: غزہ کے اندر ایک بین الاقوامی فورس کی تعیناتی جو عبوری مدت میں سکیورٹی معاملات کی ذمہ داری سنبھالے۔

دوم: ایک شہری انتظامی ڈھانچہ جس کو عالمی طاقتیں کنٹرول کریں تاکہ خدمات اور حکمرانی ان کے تابع ہو جائے۔

سوم: مزاحمتی قوتوں کے اسلحہ کے مسئلے کو زیرِبحث لا کر اسے “حل” کرنا جو اس منصوبے کی سب سے حساس اور بنیادی گتھی ہے۔

الریماوی کا اندازہ ہے کہ حماس انتظامی ڈھانچے سے متعلق لچک دکھا سکتی ہے مگر اپنی عسکری ساخت پر کسی بیرونی مداخلت کو قبول نہیں کرے گی اور یہی عنصر عالمی منصوبے کو سب سے دشوار مرحلے میں دھکیل دیتا ہے۔

حماس کا مؤقف: ڈکٹیشن کی شدید مخالفت، غزہ کو باقی فلسطین سے کاٹنے کا انتباہ

حماس نے اپنے باضابطہ بیان میں فیصلے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے “غزہ پر بین الاقوامی وصایت” اور قابض اسرائیل کے لیے وہ راستہ ہموار کرنے کی کوشش قرار دیا جسے وہ جنگ میں حاصل نہ کر سکا۔

حماس نے واضح کیا کہ مزاحمت کا اسلحہ چھیننے یا کمزور کرنے کا کوئی بھی اقدام بین الاقوامی فورس کو غیر جانبدار نہیں رہنے دے گا بلکہ اسے براہِ راست تنازع کا فریق بنا دے گا۔

حماس نے اس بات پر بھی شدید تشویش ظاہر کی کہ یہ فیصلہ فلسطینی جغرافیائی وحدت کو نقصان پہنچا کر غزہ کو سیاسی و انتظامی طور پر مغربی کنارے سے الگ کرنے کی کوشش ہے۔

فلسطینی اتھارٹی: فوری تائید… لیکن مشکل حساب کتاب

الریماوی لکھتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی نے فیصلے پر جلدی خوشی کا اظہار کیا کیونکہ وہ غزہ میں واپسی کی خواہاں ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ

قابض اسرائیل غزہ میں کسی مضبوط فلسطینی اتھارٹی کا وجود نہیں چاہتا جبکہ امریکہ کے نزدیک اتھارٹی ابھی “پختہ یا موزوں” نہیں کہ اہم سکیورٹی معاملات سنبھال سکے۔

لہٰذا الریماوی پیش گوئی کرتے ہیں کہ اگر اتھارٹی کو کوئی کردار ملا بھی تو وہ محدود ہوگا اور براہِ راست امریکی امن کونسل کی نگرانی میں مکمل ہوگا۔

اسلحے کا مسئلہ… ممکنہ ٹکراؤ کی بنیاد

الریماوی کے مطابق مزاحمت کے اسلحے کا معاملہ وہ گتھی ہے جو کسی بھی سیاسی اسکیم کو عملی جامہ پہننے سے روک سکتی ہے۔

مزاحمت اپنے ہتھیار کسی صورت نہیں چھوڑے گی اور اگر بین الاقوامی فورس کو اس کام پر لگایا گیا تو وہ ثالث نہیں بلکہ لڑائی کا حصہ بن جائے گی۔

الریماوی کا خیال ہے کہ مزاحمت سیاسی الفاظ اور حکمت عملی کے ذریعے کچھ پہلوؤں میں لچک دکھا سکتی ہے مگر اپنی عسکری قوت کی بنیاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔

مستقبل کے امکانات: جزوی کامیابی یا نئے بحران؟

تجزیہ کار تین واضح امکانات بیان کرتے ہیں کہ

مکمل کامیابی، کامیابی رکاوٹوں کے ساتھ، یا مکمل ناکامی

مگر وہ چوتھے امکان کو زیادہ حقیقت پسندانہ کہتے ہیں

“نسبتی کامیابی” یعنی منصوبے کو جزوی طور پر چلانا تاکہ عالمی توازن برقرار رہے لیکن بحران اور کشیدگی کی فضا برقرار رہے۔

انتخابات، تعمیر نو اور قابض اسرائیل کا دباؤ

الریماوی کا کہنا ہے کہ آنے والے اسرائیلی انتخابات قابض اسرائیل کا موقف بدل سکتے ہیں یا اسے مزید سخت کر سکتے ہیں۔

وہ توقع کرتے ہیں کہ قابض اسرائیل تعمیر نو اور انخلا کے معاملات کو غزہ کے عوام اور تمام سیاسی قوتوں پر دباؤ ڈالنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گا۔

مجموعی طور پر الریماوی کا کہنا ہے کہ غزہ اس وقت عالمی منصوبوں، علاقائی ترجیحات اور فلسطینی داخلی حساب کتاب کے ایک نہایت پیچیدہ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔

ایک طرف بین الاقوامی فورس کی تیاری ہے
دوسری طرف غزہ کی نئی انتظامی شکل
اور تیسری طرف مزاحمت کے اسلحے کی گتھی

یہ سب مل کر غزہ کو ایک ایسی عبوری صورتحال میں دھکیل رہے ہیں جس کے اختتامی خطوط ابھی دھندلے اور “مکمل طور پر کھلے” ہیں۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan