غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
جنوبی غزہ میں قابض اسرائیلی فوج کی گولیاں دو نہتے فلسطینیوں کی زندگی نگل گئیں۔ قابض فوج نے انہیں اس جھوٹے الزام میں نشانہ بنایا کہ وہ مبینہ طور پر ’’یلو لائن ‘‘ عبور کر کے فوجی چوکیوں کے قریب پہنچ گئے تھے۔
قابض اسرائیلی فوج نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ اس کی نگرانی پر مامور یونٹوں نے دو فلسطینیوں کو یلو لائن پار کرتے ہوئے دیکھا اور انہیں جنوبی غزہ میں قائم فوجی ٹھکانوں کی طرف بڑھتے ہوئے نشانہ بنا دیا۔
مقامی ذرائع نے تصدیق کی کہ وسطی غزہ کے البریج کیمپ کے مشرق میں قابض فوج کی فائرنگ سے نوجوان احمد عطایا ابو شاویش موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ علاقے میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی جہاں پہلے ہی قابض اسرائیلی سفاکیت سے زخموں سے چور عوام موت اور محاصرے کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔
یلو لائن وہ حد ہے جس کے مشرق میں قابض اسرائیلی فوج پھیلی ہوئی ہے جو عملاً غزہ کی نصف سے زائد مشرقی اراضی کو فوجی قبضے میں تبدیل کر چکی ہے۔ اس کے برعکس غزہ کی مغربی پٹی کے علاقوں میں شدید پابندیوں کے باوجود فلسطینیوں کی محدود نقل و حرکت ممکن ہے۔
دس اکتوبر کو مصر، قطر، امریکہ اور ترکیہ کی ثالثی سے جنگ بندی کا معاہدہ نافذ ہوا تھا۔ لیکن قابض اسرائیلی فوج نے پہلے ہی دن سے اس معاہدے کو روند ڈالا اور وقفے وقفے سے بمباری، فائرنگ، گھیراؤ اور سکیورٹی و انتظامی انتظامات کے دوسرے مرحلے کو تعطل کا بہانہ بنا کر اپنی جارحیت جاری رکھی۔ چند علاقوں سے معمولی انخلا کے باوجود قابض اسرائیل نے غزہ کے اندر اپنی عسکری گرفت کو نرم نہیں ہونے دیا۔
سرکاری، حقوقی اور مزاحمتی ذرائع کے مطابق جنگ بندی کے آغاز سے اب تک قابض اسرائیل کی درجنوں خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئی ہیں جن میں پیلا خط کے مغربی جانب شہریوں پر براہ راست گولہ باری اور فائرنگ شامل ہے۔ قابض اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کو دھمکانے، خوف پھیلانے اور اجتماعی سزا دینے کے لیے اس ’’خط‘‘ کو اپنے تشدد کے ایک اور بہانے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 11 اکتوبر سے اب تک شہداء کی تعداد بڑھ کر 266 ہو گئی ہے جبکہ 635 فلسطینی زخمی ہیں۔ غزہ میں انسانی بحران روز بروز گہرا ہوتا جا رہا ہے جہاں محاصرہ، تباہ شدہ بنیادی ڈھانچہ، بند ہسپتال، بھوک، بیماری اور جبری بے گھری نے زندگی کو مسلسل اذیت میں بدل دیا ہے۔