Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

خاص خبریں

“ہم اسے پھر زندہ کریں گے”، نسل کشی کی تباہ کاریوں میں ڈوبا غزہ، مگر عزم زندہ!

غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

غزہ کی پٹی پر قابض اسرائیل کی دو برس طویل نسل کشی کی جنگ نے جو ہمہ گیر بربادی برپا کی اس کے ملبے اور خاکستر کے بیچ بلدیہ نے مقامی تنظیموں اور نوجوان رضاکاروں کے تعاون سے “حنعمرہا تانی” (ہم اسے پھر تعمیر کریں گے) کے عنوان سے ایک علامتی مہم دوبارہ شروع کی ہے، تاکہ شہر کی ڈوبتی ہوئی سانسوں میں قدرے زندگی کا سرور لوٹایا جا سکے اور جنگ نے جو بربادیاں کیں ان کے کچھ حصے دوبارہ کھڑے کیے جا سکیں۔

یہ مہم ایسے وقت میں شروع کی گئی ہے جب قابض اسرائیل نے امدادی سامان اور تعمیر نو کی اشیا کے داخلے پر شدید ترین پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ان پابندیوں نے ہزاروں خاندانوں کی حالت کو مزید ابتر کر دیا ہے، خاص طور پر بارشوں کے باعث محفوظ پناہ گاہ نہ رکھنے والے خاندانوں کی اذیت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ یہی صورت حال بنیادی ڈھانچے کی بحالی اور معمولات زندگی کی طرف واپسی کو نہایت کٹھن بنا رہی ہے۔

سرايا چوک میں ہونے والی سرگرمی میں سیکڑوں شہری شریک ہوئے جبکہ رضاکار ٹیمیں سڑکوں کی صفائی اور شجرکاری میں مشغول رہیں، تاکہ تباہ حال علاقوں میں زندگی کی رمق پیدا کی جا سکے اور مقامی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی برادری کو بھی امید کا پیغام دیا جا سکے۔

یہ مہم فلسطینی سول سوسائٹی نیٹ ورک، چیمبر آف کامرس اور مختلف عمر سے تعلق رکھنے والے درجنوں شہریوں خصوصا بچوں کی شمولیت سے شروع کی گئی۔

غزہ شہر کے وسط میں سرايا کے علاقے کے چوک سے شروع ہونے والی اس مہم کے تحت مرکزی سڑکوں کی صفائی، ملبے اور کچرے کی صفائی اور تباہ شدہ علاقوں میں درخت لگا کر وہاں دوبارہ زندگی کا احساس جگانے کی کوششیں شامل ہیں جنہیں قابض اسرائیل نے بدترین تباہی کا نشانہ بنایا تھا۔

بلدیہ کے مطابق یہ مہم “امید کے ایک چراغ“ کو روشن کرنے کی کوشش ہے، تاکہ تعمیر نو اور بحالی میں عوام کی اجتماعی شمولیت کو بڑھایا جائے اور شہر کی دوبارہ تعمیر کے لیے عزم کو مجتمع کیا جا سکے۔

بلدیہ کے سربراہ یحییٰ السراج کا کہنا ہے کہ “حنعمرہا تانی” مہم غزہ کے دل اور شہر کے قلب سے شروع ہوئی ہے۔ اس میں معاشرے کے تمام طبقات شریک ہیں۔ یہ مہم اس مضبوط ارادے کے ساتھ شروع کی گئی ہے کہ اہل غزہ باقی رہیں گے اور اپنی سرزمین کو نہیں چھوڑیں گے۔ وہ لوٹ آئے ہیں اور اسے پہلے سے زیادہ خوبصورت بنانے کی جدوجہد کر رہے ہیں“۔

مہم کے پیغامات

انہوں نے واضح کیا کہ اگرچہ یہ مہم علامتی ہے مگر اس کے مفاہیم بہت گہرے ہیں۔ سب سے نمایاں مطلب یہ ہے کہ فلسطینیوں نے امید نہیں کھوئی بلکہ وہ اپنی پوری قوت صرف کر کے اس شہر میں قابض اسرائیل کے دو برس کے حملوں سے تباہ کی گئی عمارتوں، بنیادی ڈھانچے، کارخانوں، سکولوں، چرچوں اور مساجد کی دوبارہ تعمیر کے لیے پرعزم ہیں۔

سرکاری میڈیا آفس کے مطابق دو برس جاری رہنے والی اس نسل کشی کی جنگ نے غزہ کے 90 فیصد شہری بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر ڈالا۔

اسی دوران مصر رواں ماہ یعنی نومبر میں غزہ کی تعمیر نو بحالی اور ترقی کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے، جبکہ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق غزہ کی تعمیر نو پر تقریباً 70 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔

مصر یہ کانفرنس عرب اسلامی منصوبے کے تحت منعقد کر رہا ہے جو مارچ میں منظور کیا گیا تھا، جس کے مطابق فلسطینیوں کو بے گھر کیے بغیر پانچ برس پر مشتمل ایک بحالی منصوبہ تشکیل دیا جائے گا جس کی کل لاگت تقریباً 53 ارب ڈالر ہو گی۔

اس تناظر میں غزہ کے میئر نے عالمی اداروں اور دنیا کے انصاف پسند لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ قابض اسرائیل پر دباؤ ڈالیں کہ وہ غزہ کی سرحدیں کھولے اور تعمیراتی سامان کی فراہمی کی اجازت دے تاکہ شہر کو دوبارہ آباد کیا جا سکے۔

انہوں نے شہر کے بنیادی ڈھانچے، نکاسی آب کے نظام، پانی کے کنوؤں اور شہری پناہ گاہوں کی فراہمی کو فوری ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ معمولی سا بارش کا سلسلہ بھی انہیں ڈبو دیتا ہے۔ ان کے مطابق ’’اہل غزہ کو باعزت اور باوقار زندگی ملنی چاہیے، یہی وہ مطالبہ ہے جو ہم عالمی برادری سے کرتے ہیں جو اہل فلسطین کی دستگیری میں پہلے ہی تاخیر کر چکی ہے‘‘۔

زندگی کی بحالی… ایک قومی عزم

سول سوسائٹی نیٹ ورک کے سربراہ امجد الشوا نے کہا کہ یہ رضاکارانہ مہم دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ محاصرے کا خاتمہ ضروری ہے اور غزہ کی تعمیر نو کا عمل فوری شروع کیا جانا چاہیے کیونکہ بارشوں نے شہریوں کی مصیبت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

غزہ کے چیمبر آف کامرس کے سربراہ عائد ابو رمضان کے مطابق یہ مہم ’’زندگی‘‘ کے عنوان سے ایک قومی کوشش ہے جو اس یقین کو تقویت دیتی ہے کہ غزہ اپنے بیٹوں کی محنت اور فولادی عزم سے ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل نے انسان، پتھر، درخت، کارخانے، تجارتی عمارتیں اور کھیت سب کو نشانہ بنایا، تمام سرگرمیاں جیسے ماہی گیری اور سیاحت مفلوج کر دی گئیں لیکن اس کے باوجود وہ فلسطینیوں کی ارادے کو توڑنے میں ناکام رہا۔

ان کے مطابق یہ منظم تباہی اس کوشش کا حصہ تھی جس کا مقصد غزہ سے زندگی کا خاتمہ کرنا اور لوگوں کو وسیع پیمانے پر جلاوطنی پر مجبور کرنا تھا مگر غزہ جو ہمیشہ راکھ سے دوبارہ جنم لیتا ہے اب پھر اسی عزم کے ساتھ اٹھنے پر بضد ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط، خوبصورت اور تعمیری جذبے سے سرشار ہو گا۔

سرکاری اعداد کے مطابق قابض اسرائیل نے غزہ پر دو لاکھ ٹن سے زائد دھماکا خیز مواد برسایا، شہری بنیادی ڈھانچے کا 90 فیصد تباہ کیا اور آتش و آہن کے ذریعے اور جبری بے دخلی کے بل پر غزہ کے 80 فیصد علاقے پر قبضہ جما لیا۔

اگرچہ 10 اکتوبر کو قابض اسرائیل اور حماس کے مابین ہونے والا جنگ بندی معاہدہ نافذ ہو چکا ہے مگر قابض اسرائیل اب بھی امداد کے داخلے پر سخت ترین پابندیاں برقرار رکھ کر اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔

قابض حکام خیموں اور عارضی گھروں جیسی پناہ گاہوں کا داخلہ بھی روک رہے ہیں، جس کے باعث بے گھر فلسطینی خستہ حال خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

گذشتہ دو روز کی بارشوں نے ہزاروں خیموں کو پانی میں ڈبو دیا جس سے بے گھر فلسطینیوں کی انسانی المیے میں مزید شدت آگئی۔ قابض اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ نے دو برس میں 70 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر دیا اور 1 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ کو زخمی کیا۔

حکومت غزہ کے ایک سابقہ بیان کے مطابق روزانہ اندر آنے والی امدادی گاڑیوں کی اوسط مقدار صرف 24 فیصد یعنی 145 ٹرک ہے جبکہ معاہدے کے مطابق یہ تعداد روزانہ 600 ہونی چاہیے تھی۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan