Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

صیہونیزم

جنگ تھمی، خطرہ باقی: غزہ 7 ہزار ٹن ناکارہ بموں کے نرغے میں

غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

برطانوی جریدہ اکانومسٹ کی شائع کردہ ایک تازہ رپورٹ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی تباہ شدہ پٹی اس وقت دنیا کے تمام جنگی علاقوں میں سب سے زیادہ ناکارہ بموں کا گودام بن چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ مہلک بارودی مواد جنگ کے ختم ہونے کے بعد بھی شہریوں کو مارنے اور عمر بھر کے لیے معذور کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ غزہ کے ڈھیر ہوئے ملبے کے نیچے اصل خطرہ چھپا ہے، جہاں قابض اسرائیل کی فوج نے ایسے کئی بم برسائے جو تاخیری دھماکہ خیز نظام سے لیس تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بم عمارتوں کے ڈھانچوں کے اندر یا زیرزمین کئی دنوں بعد اچانک پھٹ سکتے ہیں، جس کے سبب ان کی تباہ کاریوں سے نمٹنا انتہائی مشکل اور خطرناک ہو جاتا ہے۔

رپورٹ نے واضح کیا کہ غزہ میں ناکارہ گولہ بارود ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اب تک ان دھماکہ خیز باقیات کے نتیجے میں 53 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

رپورٹ میں چھ سالہ جڑواں بچوں یحییٰ اور نبیلہ الشرباصی کا دل دہلا دینے والا واقعہ بھی شامل ہے جو ایک ایسے بم کو کھلونا سمجھ کر ہاتھ میں لے بیٹھے جو ابھی پھٹا نہیں تھا۔ نتیجتاً دونوں بچے شدید زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ اس ہولناک حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ غزہ کے بچے روزانہ موت کے سائے میں کھیلنے پر مجبور ہیں۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق غزہ میں غیر پھٹی ہوئی گولہ بارود کی مجموعی مقدار سات ہزار ٹن سے بھی بڑھ چکی ہے۔ یہ مہلک مواد غزہ کے تقریباً چالیس فیصد رہائشی علاقوں میں بکھرا ہوا ہے۔ سب سے زیادہ آلودہ علاقے بیت حانون، بیت لاہیا اور جبالیا بتائے جا رہے ہیں۔

انسانی امدادی تنظیم ہیومینیٹی اینڈ انکلوژن کا کہنا ہے کہ اگر عالمی سطح پر فوری اور وسیع انجینئرنگ مدد فراہم نہ کی گئی تو ان تمام بارودی باقیات کو صاف کرنے میں بیس سے تیس سال لگ سکتے ہیں۔ تنظیم کے ماہرِ بارودی مواد نِک اور نے کہا کہ “تمام ملبہ کبھی مکمل طور پر نہیں ہٹایا جا سکے گا، کیونکہ کچھ مواد زیرزمین دفن ہے۔ ہم اسے آنے والی نسلوں میں بھی دریافت کرتے رہیں گے”۔

اکانومسٹ نے مزید بتایا کہ عراق کے شہر موصل میں داعش کے خلاف جنگ کے اختتام کے بعد بھی اقوام متحدہ کو ایسے ناکارہ بارودی مواد کی صفائی میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ تاہم غزہ کو قابض اسرائیل کی جانب سے کہیں زیادہ وحشیانہ اور بے رحمانہ بمباری کا سامنا رہا ہے اس لیے غزہ کی صفائی کا عمل کئی گنا زیادہ خطرناک اور پیچیدہ ہو چکا ہے۔

رپورٹ میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی کہ اقوام متحدہ کی بارودی سرنگیں صاف کرنے کی کوششیں اسرائیلی پابندیوں سے شدید متاثر ہیں۔ ماہرین اور ضروری آلات کی غزہ میں رسائی روک دی جاتی ہے۔ قابض اسرائیل نے کئی اہم تکنیکی آلات کو “دوہری استعمال کی حامل ممنوعہ اشیا” کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے جس کے باعث غزہ میں کام کرنے والی ٹیموں کو متبادل طریقے خود تیار کرنے پڑ رہے ہیں، جیسے کھانے کے پرانے تھیلوں میں ریت بھر کر حفاظتی رکاوٹ کے طور پر استعمال کرنا۔

رپورٹ کے مطابق غزہ کا چیلنج اس لیے بھی بے مثال ہے کہ یہاں بارودی مواد صاف کرنے کے لیے شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا ممکن نہیں۔ موصل اور دیگر شہروں کے برعکس غزہ میں کوئی بھی پناہ گاہ محفوظ نہیں کیونکہ قابض اسرائیل نے غزہ کے بیشتر ڈھانچے تباہ کر دیے ہیں اور پوری پٹی کو موت کا میدان بنا چھوڑا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan