Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

خاص خبریں

غزہ کے لیے امریکی فورس کا منصوبہ عالمی مخالفت کا شکار

ماسکو ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

چین اور روس سمیت متعدد عرب ممالک نے غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس کے قیام سے متعلق امریکہ کے مجوزہ منصوبے کی مخالفت کر دی ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اقوام متحدہ کے چار سفارتکاروں کے حوالے سے رپورٹ دی، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بعض عرب ممالک نے اس منصوبے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس منصوبے میں غزہ کی انتظامی کارروائیوں میں فلسطینی اتھارٹی کو کوئی کردار نہیں دیا گیا۔

سفارتکاروں کے مطابق روس اور چین جو سلامتی کونسل کے مستقل ارکان ہیں اور ویٹو کا حق رکھتے ہیں انہوں نے امریکی منصوبے میں شامل نام نہاد “مجلسِ امن” کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کردہ اس منصوبے میں “سکیورٹی کمیٹی” نامی ایک اعلیٰ انتظامی ادارہ تشکیل دینے کا تصور شامل تھا جس کی سربراہی ٹرمپ خود کرتے اور اس میں دیگر ممالک کے رہنماؤں کی بھی شمولیت ہوتی جن کے نام بعد میں ظاہر کیے جانے تھے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی منصوبے کے تازہ ترین مسودے میں “مجلسِ امن” کا ذکر برقرار رکھا گیا ہے تاہم اس میں فلسطینی عوام کے حق خودارادیت سے متعلق کچھ اضافی نکات بھی شامل کیے گئے ہیں۔

گذشتہ ہفتے امریکی میڈیا نے خبر دی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ نے سلامتی کونسل کے ارکان کو ایک مجوزہ منصوبہ پیش کیا ہے جس میں اس بین الاقوامی فورس کی نوعیت اور ذمہ داریوں کی تفصیلات شامل ہیں جو کم از کم دو سال کے لیے غزہ میں تعینات کی جائے گی۔

یہ بین الاقوامی فورس بھی ٹرمپ منصوبے کا حصہ ہے جس پر قابض اسرائیل اور حماس کے درمیان موجودہ فائر بندی معاہدہ قائم ہے جو 10 اکتوبر گذشتہ برس سے نافذ ہے۔

منصوبے کے مطابق اس امریکی قرارداد کو آئندہ ہفتوں میں ووٹنگ کے لیے پیش کیا جائے گا تاکہ اسے باضابطہ منظور کر کے جنوری میں غزہ میں پہلی یونٹ بھیجی جا سکے۔

گذشتہ ہفتے ہی امریکی میڈیا اداروں جن میں “اکسیئوس” بھی شامل ہے نے خبر دی تھی کہ مجوزہ فورس روایتی امن فورس کے بجائے ایک “عملیاتی فورس” ہو گی جس میں مختلف ممالک کے دستے شامل ہوں گے۔ یہ فورس غزہ کی سرحدوں کو قابض اسرائیل اور مصر کے ساتھ محفوظ بنانے، شہریوں کے تحفظ، انسانی راستوں کی حفاظت اور ایک نئی فلسطینی پولیس فورس کی تربیت کی ذمہ دار ہو گی۔

امریکی مسودے کے مطابق اس فورس کو غزہ میں عسکری ڈھانچے کی تباہی، فلسطینی مزاحمتی گروہوں کا اسلحہ ضبط کرنے اور پورے علاقے کو غیر مسلح بنانے کا اختیار بھی دیا جائے گا۔ اس میں القسام بریگیڈز کے اسلحے کے جبری انہدام کا بھی ذکر شامل ہے اگر یہ عمل رضاکارانہ طور پر نہ ہوا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اگرچہ اس نوعیت کے تحفظات سلامتی کونسل کے مذاکراتی عمل کا معمول کا حصہ ہوتے ہیں مگر موجودہ اختلافات اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ واشنگٹن اور سلامتی کونسل کے بعض ارکان کے درمیان دو سال طویل جاری غزہ جنگ کے پس منظر میں شدید کشیدگی برقرار ہے۔

مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاتی نے ترکیہ کے چینل “خبر تورک” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ بین الاقوامی فورس کو لازماً امن برقرار رکھنے کے مشن کا حصہ ہونا چاہیے تاکہ اسے قابل عمل اور مؤثر بنایا جا سکے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فورس وقف فائر کی مانیٹرنگ، فلسطینی پولیس کی تربیت اور اس کی استعداد کار میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ سرحدوں اور گزرگاہوں کی سکیورٹی یقینی بنانے کا اختیار رکھے۔ ان کے مطابق یہ فورس فلسطینی عوام کی منظوری کے بغیر غزہ میں داخل ہوئی تو اسے قبضے کی طاقت سمجھا جائے گا۔

بین الاقوامی فورس میں شامل ہونے والے ممالک کے حوالے سے بدر عبدالعاتی نے کہا کہ یہ معاملہ ابھی زیر غور ہے اور شمولیت رضاکارانہ بنیادوں پر ہو گی۔ انہوں نے بتایا کہ ممالک اور دستوں کی تعداد کے حوالے سے بحث جاری ہے جبکہ چند اسلامی اور یورپی ممالک نے ابتدائی طور پر دلچسپی ظاہر کی ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan