مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” نے قابض اسرائیل کے یہودی آباد کاروں کی جانب سے القدس گورنری کے شمال میں کفل حارس اور دیر استیا کے درمیان واقع مسجد الحاجہ حمیدہ کو آگ لگانے کے سنگین جرم کی شدید مذمت کی ہے۔ حماس نے اسے قابض ریاست میں جڑیں پکڑے ہوئے سادی ازم اور نسلی امتیاز کی ایک اور واضح مثال قرار دیا اور کہا کہ یہ فلسطینی عوام کی اسلامی و عیسائی مقدسات پر جاری مسلسل حملوں کا حصہ ہے۔
حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ مسجد کو جلانا اور دیواروں پر عبرانی زبان میں نسلی نعروں کی چاکنگ “مساجد کی حرمت اور مسلمانوں کے عبادت کے حقوق پر کھلا حملہ ہے”۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ عمل “یہودی آباد کاروں کے منظم جرائم کی ایک کڑی ہے جسے قابض اسرائیل کی فاشسٹ حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہے”۔
بیان میں کہا گیا کہ زمین اور مقدسات کے خلاف بڑھتے ہوئے حملے “مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی ریاست کی منصوبہ بندی کے تحت حقیقی صورتحال مسلط کرنے اور تاریخی نقش و نگار بدلنے کی کوشش” کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر مضبوط کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ سرکش ریاست جس نے بین الاقوامی قوانین اور الہی احکام کی خلاف ورزی کی ہے، روکی جا سکے۔
عینی شاہدین کے مطابق ایک مسلح گروپ نے دیر استیا میں جمعرات کی صبح چھاپہ مارا اور مسجد کے کچھ حصوں میں آگ لگا دی، پھر فلسطینیوں کو نکالنے کے نسلی پرستانہ نعروں کی چاکنگ کی۔بعد ازاں مقامی لوگ آگ بجانے میں کامیاب ہو گئے اور مسجد کو مزید نذرآتش ہونے سے بچا لیا۔
وزارت اوقاف و امور دینیہ نے بھی اس افسوسناک واقعے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ کارروائی قابض یہودی آباد کاروں کی روزانہ کی بنیاد پر اسلامی مقدسات اور شہریوں کی املاک پر بڑھتے ہوئے حملوں کی ایک کڑی ہے، جس میں شدت اور نوعیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
وزارت مذہبی امور نے کہا کہ مسجد میں آگ لگانا واضح طور پر یہودی قابض ریاست کی نسلی ترغیب کی مشین کی ہم آہنگی کو ظاہر کرتا ہے، جو فلسطینیوں کے اسلامی و عیسائی مقدسات کے خلاف استعمال کی جا رہی ہے، اور یہ مسلمانوں اور ان کے جذبات پر کھلا حملہ ہے۔
یہ واقعہ مغربی کنارے میں عبادت گاہوں کے خلاف بار بار ہونے والے جرائم کی ایک اور کڑی ہے۔ فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس سال کے آغاز سے متعدد مساجد کو جلانے اور قرآن پاک کی توہین کے کئی واقعات درج کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہودی آباد کاروں کے حملے فوج کی حفاظت میں ہوئے ہیں۔
دیوار اور آباد کاری کے خلاف مزاحمتی ادارے کے مطابق یہودی آباد کاروں نے غزہ کی جنگ کے دو سال کے دوران 7150 سے زائد حملے کیے، جس میں 33 فلسطینی شہید اور 33 آبادی والے مقامات کو بے دخل کیا گیا۔ فوج اور آباد کاروں کے مشترکہ تشدد سے کم از کم 1070 فلسطینی شہید اور تقریباً 10,700 زخمی ہوئے، جبکہ 20,500 سے زائد کو گرفتار کیا گیا۔
یہ حملے اس قابض اسرائیلی نسل کشی کی جنگ کے اثرات کے ساتھ ہم آہنگ ہیں جو آٹھ اکتوبر سنہ 2023ء سے غزہ پر جاری ہے، جس میں 69 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور تقریباً 170 ہزار زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی بحالی کی لاگت 70 بلین ڈالر سے زائد تخمینہ ہے۔