Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

خاص خبریں

بھوک کے ذریعے مزاحمت توڑنے کی صہیونی کوششیں تیز

غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

فائر بندی کے معاہدے کو ایک ماہ گزرنے کے باوجود غزہ کے لاکھوں شہری اب بھی ایک اور طرح کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ یہ ہے بھوک کی جنگ۔ وہ کراسنگ جنہیں کھول کر خوراک اور دوا داخل کی جانی تھی، اب صرف چاکلیٹ، مشروبات، چپس اور فالتو عیش و عشرت کی اشیاء کے گزرگاہ بن چکے ہیں، جبکہ زندگی کی بنیاد بننے والی اجناس آٹا، دالیں، دودھ اور گوشت غائب ہیں۔ دو ملین سے زائد انسانوں کی زندگیاں اب فاقوں کے دہانے پر ہیں۔

غزہ میں سرکاری دفتر برائےاطلاعات کے ڈائریکٹر اسماعیل الثوابتہ نے کہا کہ “قابض اسرائیل جنگ بندی معاہدے کے تحت امداد اور ضروری سامان کی فراہمی سے منہ موڑ رہا ہے، جس نے انسانی بحران کو شدید تر کر دیا ہے اور بھوک و محرومی کی حالت کو برقرار رکھا ہے”۔

انہوں نے ایک بیان میں بتایا کہ 10 اکتوبر سے 5 نومبر کے درمیان صرف 4453 ٹرک داخل ہو سکے، یعنی یومیہ بمشکل 145 ٹرک جو کہ طے شدہ مقدار 600 ٹرک روزانہ کا صرف 24 فیصد ہے۔

الثوابتہ نے قابض اسرائیل کو مکمل طور پر ذمہ دار قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری اور سنجیدہ اقدام کرے تاکہ بنیادی ضروریات اور ایندھن کی ترسیل بغیر کسی شرط کے ممکن بنائی جا سکے۔

غذاء مگر بے جان

قابض اسرائیلی حکام نے بازاروں میں مہنگی مگر غذائیت سے خالی اشیاء پھیلادی ہیں۔ جب کہ آٹا، اناج، دالیں، دودھ اور گوشت ممنوع ہیں، قہوہ، چاکلیٹ اور گیس والے مشروبات کی اجازت ہے۔ ایندھن کی کمی کے باعث تندور، ہسپتال اور اہم ادارے تقریباً بند ہیں۔

نتیجتاً اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے، اور غزہ کے گھروں کی میزوں پر زندگی کے بنیادی تقاضے مفقود ہو چکے ہیں۔

35 سالہ محمد ماہر کہتے ہیں: “مجھے چوٹ کے بعد ہڈیوں کی بحالی کے لیے پروٹین والی خوراک چاہیے، مگر مارکیٹ میں صرف چاکلیٹ اور چپس ہیں۔ حتیٰ کہ جمی ہوئی مرغی بھی خراب ہو چکی اور اس کی قیمت 35 شیکل فی کلو ہے۔ گولیاں رک گئیں مگر بھوک نہیں۔”

60 سالہ عصام نے حسرت سے کہاکہ “ہم کچھ خریدنے کے قابل نہیں رہے۔ بچوں کا دودھ نایاب ہے۔ سبزیاں اور آلو سونے کے بھاؤ ملتے ہیں۔ ہم پنیر اور زعتر پر گزارا کر رہے ہیں کیونکہ یہی سستا ہے۔ میری بیوی کینسر کی مریضہ ہے، مگر وہ غذا ہم مہیا نہیں کر سکتے جس کی اسے اشد ضرورت ہے۔”

عیش و عشرت کی اشیاء کا سیلاب، بھوک کا دائرہ وسیع

دیر البلح کے سکولوں میں قائم پناہ گاہوں میں بھی حالات یکساں ہیں۔ چالیس سالہ ابو بلال نے مختصر مگر دل دہلا دینے والی بات کہی: “ہم انڈومی، چپس اور چاکلیٹ سے کیا کریں؟ آٹھ ماہ سے مرغی یا مچھلی نہیں دیکھی۔ قابض اسرائیل دنیا کو دھوکہ دے رہا ہے کہ معابر کھلے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ بھوک کا محاصرہ بدستور جاری ہے۔”

دیگر شہریوں نے بتایا کہ جو سامان داخل ہونے دیا جاتا ہے، وہ صرف دکھاوے کی مہنگی اشیاء ہیں۔ آٹا نایاب ہے، چاول کم یاب اور بیشتر خاندانوں کی کوئی آمدنی نہیں۔

اقوام متحدہ کا انتباہ: غزہ کے بچے موت کے دہانے پر

جب بھوک کی یہ جنگ شدت پکڑ رہی ہے، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے گذشتہ روز خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی طرف سے انسانی امداد میں رکاوٹوں کے باعث ہزاروں بچے جان کے خطرے سے دوچار ہیں۔

جنیوا میں ترجمان ریکارڈو بیریس نے بتایا کہ اگست سے اب تک 9 لاکھ 38 ہزار بچوں کے لیے تیار دودھ کی بوتلیں قابض اسرائیل نے روک رکھی ہیں، اور اس تاخیر سے “ہزاروں نومولود بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔”

بیریس کے مطابق پیدائش کٹس، شمسی توانائی سے چلنے والی فریجیں، پرزے، جنریٹرز اور پانی صاف کرنے والے آلات کی ترسیل میں رکاوٹوں نے امدادی اداروں کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پچھلے ہفتوں میں امداد میں معمولی اضافہ ہوا، لیکن اب بھی کئی ضروری سامان بندش کا شکار ہے۔ 12 اکتوبر سے 10 نومبر کے درمیان محض 5500 ٹرک داخل ہو سکے۔

“خالی پیٹوں کی نسل کشی”

ماہرِ غذائیت یاسمین لبد نے نامہ نگار سے گفتگو میں کہا کہ “یہ محض خوراک کی کمی نہیں، بلکہ ایک سوچی سمجھی پالیسی ہے جس کا مقصد غزہ کے عوام کی جسمانی طاقت اور صحت کو توڑنا ہے۔ قابض اسرائیل چاکلیٹ اور کیفین جیسی کمالی اشیاء کی اجازت دیتا ہے، مگر دودھ، انڈے اور تازہ گوشت روک دیتا ہے، جس سے غذائی قلت اور بیماریوں میں خوفناک اضافہ ہو رہا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ “یہ سب اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم سازش ہے تاکہ غزہ ہمیشہ غذائی کمزوری کا شکار رہے۔ دواؤں اور غذائی سپلیمنٹس کی کمی نے بھی صورتحال کو تباہ کن بنا دیا ہے۔”

جبرتلے چیختی زندگیاں

اکتوبر سنہ2023ء سے جاری محاصرہ، تباہ شدہ انفراسٹرکچر کا 70 فیصد اور 90 فیصد بند فیکٹریوں کے ساتھ، غزہ کے عوام کو بھوک، بیماری اور ملبے میں جینے پر مجبور کر رہا ہے۔ قابض اسرائیل کے دعووں کے برعکس، غزہ میں داخل ہونے والا سامان زندگی نہیں، صرف نام نہاد خوراک ہے — ایک ایسی خوراک جس میں زندگی کا ذائقہ ختم کر دیا گیا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan