مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
تل ابیب کی مجسٹریٹ عدالت کے جج فریڈمین فیلڈمین نے منگل کے روز ہونے والی سماعت کے دوران قابض اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کو بدعنوانی کے مقدمات میں پیشی کے موقع پر سختی سے ڈانٹ دیا۔
قابض اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق نیتن یاھو اس ہفتے پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔ گذشتہ ہفتے ہونے والی سماعت میں ان سے اسرائیلی کاروباری شخصیت ارنون میلچن کی جانب سے دی جانے والے قیمتی تحائف کے بارے میں سوالات پوچھے گئے تھے جن میں مہنگے سگار بھی شامل تھے۔
نیتن یاھو نے غصے کے عالم میں کہا کہ “وہ مجھے ابتدا ہی سے تحائف دیتا رہا، وہ میرے حوصلے بلند رکھنا چاہتا تھا، وہ میرے لیے بھائی کی مانند ہے۔ کیا اب ہم دوست کے دیے ہوئے ایک سگار پر بات کریں گے؟”
ان کے اس رویے پر جج فیلڈمین نے برہمی ظاہر کرتے ہوئے انہیں ٹوکا اور کہا “جناب نیتن یاھو، براہِ کرم آپ سے کیے گئے سوالوں کے سیدھے جواب دیں، غیر متعلقہ تبصرے نہ کریں”۔ یہ بات ترکی کی خبر ایجنسی اناطولیہ نے رپورٹ کی۔
اسی دوران عبرانی اخبار “یدیعوت احرونوت” نے انکشاف کیا کہ نیتن یاھو نے دورانِ سماعت اپنی گواہی عارضی طور پر معطل کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ ایک “اہم ٹیلی فون کال” سن سکیں۔ ان کے اس طرزِ عمل کو عدالتی عمل میں تاخیر اور ذمہ داری سے فرار کی ایک اور کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
نیتن یاھو کے خلاف بدعنوانی کے تین بڑے مقدمات چل رہے ہیں جنہیں فائل نمبر 1000، 2000 اور 4000 کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان مقدمات میں ان پر رشوت لینے، اختیارات کے ناجائز استعمال، خیانتِ امانت، اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے اپنے منصب کو استعمال کرنے جیسے سنگین الزامات عائد ہیں۔
الزامات کے مطابق نیتن یاھو اور ان کے اہلِ خانہ نے مختلف اسرائیلی تاجروں سے قیمتی تحائف اور مراعات وصول کیں جن کے بدلے میں ان تاجروں کو سرکاری سطح پر سہولتیں فراہم کی گئیں، اور ساتھ ہی نیتن یاھو نے صہیونی میڈیا اداروں سے ساز باز کر کے اپنی سیاسی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کی۔
یہ مقدمات سنہ2020ء میں شروع ہوئے تھے اور اب تک مسلسل جاری ہیں۔ نیتن یاھو تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں ایک “سیاسی مہم” قرار دیتے ہیں جس کا مقصد ان کی اقتدار سے بے دخلی ہے۔