غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
“میں ہر لمحہ موت کی خواہش کرتی رہی۔ مجھے بارہا برہنہ کیا گیا اور میری بے بسی پر وہ ہنستے تھے، تصویریں کھینچتے تھے” یہ الفاظ ہیں ایک 42 سالہ فلسطینی ماں کے، جس نے قابض اسرائیلی جیل میں اپنے ساتھ روا رکھے گئے وحشیانہ مظالم کی داستان سناتے ہوئے دل دہلا دینے والی تفصیلات بیان کیں۔
یہ بیان مرکز فلسطینی برائے حقوقِ انسانی نے اپنی تازہ رپورٹ میں شامل کیا ہے، جس میں قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینی قیدیوں، مرد و خواتین، پر منظم اور منصوبہ بند جنسی تشدد کے واقعات کو ایک تسلسل کے ساتھ دستاویزی شکل دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان مظالم کا مقصد صرف اذیت نہیں بلکہ اہلِ غزہ کے خلاف جاری اجتماعی نسل کشی کا تسلسل ہے، جو ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت انسانیت کی توہین اور فلسطینی شناخت کو مٹانے کی کوشش ہے۔
رپورٹ میں وکلا اور محققین کے ذریعے حاصل کی گئی ان درجنوں شہادتوں کو شامل کیا گیا ہے جنہیں قابض جیلوں اور حراستی مراکز سے رہائی پانے والے فلسطینی اسیران نے بیان کیا۔ ان بیانات سے انکشاف ہوتا ہے کہ اسرائیلی تفتیشی اہلکاروں اور فوجی اہلکاروں نے قیدیوں کے ساتھ جسمانی، نفسیاتی اور جنسی تشدد کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اس دوران نہ صرف انہیں زدوکوب کیا گیا بلکہ ان کی تذلیل اور ریکارڈنگ جیسے اقدامات بھی کیے گئے تاکہ انسانی وقار کو روند ڈالا جائے۔
مرکز فلسطینی برائے حقوقِ انسانی کا کہنا ہے کہ یہ واقعات انفرادی یا حادثاتی نہیں بلکہ ایک منظم پالیسی کا حصہ ہیں، جس کے تحت قابض اسرائیلی حکام اجتماعی سزا کے ذریعے دو ملین سے زائد محصور فلسطینیوں کو جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
غزہ میں مختلف مقامات سے گرفتار کی گئی خواتین نے بیان دیا کہ انہیں گرفتاری کے فوراً بعد سکیورٹی اہلکاروں نے اذیت ناک طریقوں سے برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا۔ انہیں گھنٹوں تک باندھ کر رکھا گیا اور دھمکیاں دی گئیں کہ ان کی تصاویر دنیا کے سامنے پھیلائی جائیں گی۔
ان خواتین نے کہا کہ وہ مسلسل اذیت کے باعث بارہا موت کی دعا مانگتی رہیں۔
ایک اور فلسطینی شہری جسےالشفاء ہسپتال سے مارچ سنہ2024ء میں گرفتار کیا گیا، نے بتایا کہ اسرائیلی اہلکاروں نے دورانِ حراست ان پر تربیت یافتہ کتوں سے حملے کروائے اور انسانیت سوز انداز میں تشدد کیا۔ اس قیدی کے مطابق “یہ سب کچھ جان بوجھ کر، منظم طریقے سے اور فوجی افسران کی نگرانی میں کیا گیا”۔
اسی طرح شمالی غزہ کے ایک اور اسیر نے بتایا کہ اسے بھی جنسی نوعیت کے اذیت ناک تشدد سے گزارا گیا اور اس دوران قابض اہلکاروں نے اسے زبردستی توہین آمیز حرکات پر مجبور کیا۔ وہ بتاتا ہے کہ “یہ اذیتیں صرف جسم پر نہیں بلکہ روح پر ثبت ہو گئیں، مجھے لگا جیسے میری انسانیت ختم کر دی گئی ہو”۔
ایک اور نوجوان فلسطینی نے انکشاف کیا کہ اسے دیگر قیدیوں کے ساتھ ایک اجتماعی کمرے میں لایا گیا جہاں سب کو برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بقول “ہماری چیخیں دیواروں سے ٹکرا کر واپس آتی تھیں، مگر کوئی سننے والا نہیں تھا۔ ان کا مقصد صرف ہمیں توڑنا تھا”۔
نسل کشی کے ہتھیار کے طور پر تشدد
مرکز فلسطینی برائے حقوقِ انسانی کے مطابق، ان بیانات پر مبنی رپورٹ ایک سو سے زائد سابق اسیران کی شہادتوں پر مشتمل ہے، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ قابض اسرائیلی افواج قیدیوں کے خلاف جنسی تشدد کو ایک منظم حربے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ مظالم بین الاقوامی قوانین کے تحت صرف تشدد نہیں بلکہ نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سنہ1948ء کی انسدادِ نسل کشی کنونشن کی دو بنیادی دفعات کا حوالہ دیا گیا ہے، جن کے مطابق کسی قوم کے افراد کو شدید جسمانی یا ذہنی اذیت دینا اور ایسی زندگی کی صورتِ حال مسلط کرنا جو ان کی تباہی کا باعث بنے، نسل کشی کے اعمال میں شمار ہوتے ہیں۔
مرکز فلسطینی نے خبردار کیا ہے کہ ہزاروں فلسطینی قیدی موت کے حقیقی خطرے سے دوچار ہیں، خاص طور پر اس کے بعد جب قابض اسرائیل کی کنیسٹ کی قومی سلامتی کمیٹی نے 3 نومبر سنہ2025ء کو ایک قانون کی منظوری دی جس کے تحت فلسطینی قیدیوں پر سزائے موت نافذ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق بیشتر قیدیوں کے اعترافات شدید تشدد اور جنسی دھمکیوں کے تحت لیے گئے، اس لیے اگر سزائے موت پر عمل کیا گیا تو یہ ایک قانونی اجتماعی قتل عام ہوگا۔
مرکز فلسطینی برائے حقوقِ انسانی نے اقوام متحدہ، عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر مداخلت کر کے قابض اسرائیلی مظالم کو روکے، تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی یقینی بنائے، لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات فراہم کرے اور تمام حراستی مراکز تک عالمی ریڈ کراس کمیٹی کی غیر مشروط رسائی بحال کی جائے۔
مزید یہ کہ متاثرہ قیدیوں اور بچ جانے والوں کے لیے فوری نفسیاتی و طبی امداد فراہم کی جائے اور ان کی شناخت کی رازداری کو مکمل طور پر محفوظ رکھا جائے۔
مرکز نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ان مظالم کی دستاویز بندی جاری رکھے گا تاکہ یہ تمام ثبوت بین الاقوامی فوجداری عدالت اور اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں میں پیش کیے جا سکیں تاکہ ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے اور مظلوموں کو انصاف دلایا جا سکے۔