مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
قابض اسرائیلی کنیسٹ کی ایک پارلیمانی کمیٹی نے ایک نیا متنازعہ قانون منظور کر لیا ہے جس کے تحت سنہ 1948ء کی مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر بسنے والے فلسطینی شہریوں کو صرف سوشل میڈیا پر “تحریک یا اشتعال انگیزی” کے الزام میں گرفتار کیا جا سکے گا، اس کے لیے کسی قانونی اجازت یا اٹارنی جنرل کی منظوری کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اسرائیلی اخبار “ٹائمز آف اسرائیل” کے مطابق کنیسٹ کی “آئین، قانون اور انصاف” کمیٹی نے چھ ووٹوں کے مقابلے میں پانچ ووٹوں سے اس قانون کے حق میں فیصلہ دیا۔
اس قانون کے تحت قابض اسرائیلی پولیس کو وسیع اختیارات دیے جا رہے ہیں تاکہ وہ کسی بھی فلسطینی کے خلاف محض شبہ کی بنیاد پر “تحریک یا اشتعال انگیزی” کے نام پر تفتیش اور گرفتاری کر سکے۔ اس قانون سے استغاثہ (پراسیکیوشن) کے اختیارات محدود کر دیے جائیں گے اور پولیس کو براہ راست کارروائی کی اجازت حاصل ہو گی۔
رپورٹ کے مطابق یہ بل اب کنیسٹ کے عمومی اجلاس میں تین مراحل میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ اس کے بعد قابض اسرائیلی پولیس کو یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ کسی بھی فلسطینی کے خلاف بغیر عدالتی منظوری کے تفتیش یا گرفتاری کر سکے۔
“ٹائمز آف اسرائیل” کے مطابق اس قانون میں “تحریک” کے الزامات پر سزائیں مزید سخت کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور کئی اپوزیشن ارکانِ کنیسٹ نے اس اقدام کو آزادی اظہارِ رائے پر حملہ اور بنیادی شہری حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق یہ قانون اسرائیلی آئین اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں سے متصادم ہے۔
دوسری جانب قابض اسرائیل کی انتہاپسند سیاسی جماعت “یہودی طاقت” کے سربراہ اور وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اب پولیس کے پاس “محرضین” کو فوراً گرفتار کرنے کے تمام ذرائع موجود ہوں گے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سنہ 1948ء کی مقبوضہ سرزمین میں بسنے والے فلسطینی، جو مجموعی آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہیں، زندگی کے تمام شعبوں میں صہیونی امتیاز اور ریاستی جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔
سنہ2023ء میں 8 اکتوبر سے غزہ کے خلاف جاری قابض اسرائیل کی دو سالہ نسل کش جنگ کے دوران، تل ابیب نے درجنوں فلسطینی شہریوں کو محض سوشل میڈیا پوسٹس کی بنیاد پر گرفتار کیا۔ اس کے برعکس ان صہیونی شہریوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جنہوں نے کھلے عام فلسطینیوں کے قتل عام اور نفرت انگیزی کو ہوا دی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان گرفتاریوں کو قابض اسرائیل کی “اجتماعی سزا” اور سیاسی انتقام قرار دیا ہے۔
قابض اسرائیلی حکومت نے اپنی غزہ میں جاری نسل کشی کے دوران فلسطینیوں کے خلاف ظلم و ستم کے لیے متعدد نئے قوانین متعارف کرائے ہیں۔ انہی میں سے ایک قانون اس وقت کنیسٹ میں زیر غور ہے جس کے تحت فلسطینی اسیران کو سزائے موت دینے کا اختیار دیا جائے گا۔
غزہ میں جاری اس نسل کش جنگ نے اب تک 69 ہزار 180 فلسطینیوں کو شہید، 1 لاکھ 70 ہزار 693 کو زخمی اور شہر کی 80 فیصد سے زائد بنیادی ڈھانچے اور اداروں کو تباہ کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق تباہ شدہ غزہ کی ازسرنو تعمیر پر تقریباً 70 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔
یہ نیا قانون اس حقیقت کو مزید واضح کرتا ہے کہ قابض اسرائیل ایک منظم نسل کشی، شہری حقوق کے قتل اور فلسطینی عوام کو خاموش کرانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔