مصر کی معروف بین الاقوامی یونیورسٹی الازھرکے مفتی اور شیخ الازھرڈاکٹر احمد طیب نے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی صدر شمعون پیریزسے نہ مصافحہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ ایک جگہ بیٹھ سکتےہیں. ہفتے کے روز ایک مصری اخبار”الاھرام” کو خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر طیب کا کہنا تھا کہ اسرائیلی صدر کے ساتھ مصافحہ کرنے کا مطلب دوسرے فریق کو اپنے اوپر حاوی کرنا ہے، میں ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ اسرائیلی صدر کے ساتھ ہاتھ ملانے سے میری حیثیت پر منفی اثر پڑے گا اور میری حیثیت متاثر ہونے سے جامعہ الازھر کا مورال خراب ہو گا. شیخ الازھر کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے اور اس نے فلسطینیوں کے حقوق غصب کر رکھے ہیں. ایسے میں فلسطینی عوام کو اپنے حقوق کے حصول اور وطن کے دفاع لیے مسلح مزاحمت سمیت تمام طریقے اختیار کرنے کا حق ہے.. ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دفترمیں یہودی مذہبی پیشواٶں کا استقبال نہیں کر سکتے کیونکہ انہی یہودی مذہبی پیشواٶں نے مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات پرقبضے کی راہ ہموار کی ہے. ایک سوال پر جامعہ ازھر کے مفتی اعظم کا کہنا تھا کہ حالیہ چند برسوں کے دوران اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے درمیان کے مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کی جو کوششیں ہوئیں ان سے تینوں مذاہب کے درمیان اختلافات کی فضا کسی حد تک کم ہوئی ہے تاہم یورپ کی جانب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں مسلسل گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور مغربی دنیا کی طرف سے اسرائیل کی کھلی اور ناجائزحمایت نے مذہبی ہم آہنگی کی کوششوں کو بری طرح متاثر کیا ہے