Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

صیہونیزم

آہنی تابوت میں 35 دن، فلسطینی قیدی کی دردناک داستان

غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

غزہ کے شہری ’عماد نَبہان‘ جب قابض اسرائیلی جیل سدیه تیمان سے رہائی پانے کے بعد باہر نکلے تو ان کے جسم پر تشدد کے نشانات اور روح پر اذیت کے زخم واضح تھے۔ وہ طوفان الاحرار کے تیسرے تبادلۂ اسیران معاہدے کے تحت رہا کیے گئے، مگر کہتے ہیں کہ “میں جیل سے آزاد ہوا ہوں، لیکن جیل مجھ سے آزاد نہیں ہوئی”۔

گرفتاری اور عقوبت خانہ سدیه تیمان

عماد نَبہان کو د سمبر 2023ء میں قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کی زمینی جارحیت کے دوران گرفتار کیا۔ بعد ازاں انہیں جنوبی اسرائیل میں قائم ایک خفیہ اور غیرقانونی عقوبت خانے سدیه تیمان منتقل کر دیا گیا، جہاں درجنوں فلسطینی شہریوں کو تفتیش کے نام پر اذیت دی جاتی رہی۔

وہ بیان کرتے ہیں کہ

“مجھے وہاں قید نہیں کیا گیا، دفن کر دیا گیا تھا۔ میں نے پینتیس دن لوہے کے تابوت میں گزارے، جہاں سانس لینا بھی جرم لگتا تھا”۔

“موسیقی کے کمروں” کا عذاب

عماد نَبہان کے مطابق انہیں ابتدائی بارہ دن ایک ایسے کمرے میں رکھا گیا جسے قابض فوجی طنزاً “موسیقی کا کمرہ” کہتے تھے۔ یہ جگہ مسلسل شور، چیخوں، دھماکوں اور بلند آوازوں سے بھری رہتی تھی تاکہ قیدیوں کا ذہنی توازن بگڑ جائے۔

“ہمیں نیند سے محروم رکھا جاتا۔ ہر لمحہ بجلی کے جھٹکے، شور اور اندھیرے کا امتزاج تھا۔ انسان کو یوں لگتا جیسے وہ خود اپنی چیخیں سن رہا ہو”۔

برقی کرسی پر تفتیش

عماد نَبہان نے بتایا کہ قابض تفتیش کاروں نے انہیں برقی کرسی پر بٹھا کر پاؤں میں تار باندھی اور جھٹکوں کے ساتھ سوالات کیے۔ ان سے مزاحمتی تنظیموں اور سرنگوں کے بارے میں معلومات طلب کی گئیں۔

“تفتیش کاروں نے کہاکہ اگر تعاون کرو تو اپنے گھر والوں سے ملاقات کرا دیں گے۔ میں نے جواب دیا، تم میری زبان سے الفاظ نکال سکتے ہو، مگر میرا ایمان نہیں”۔

کھانے کے نام پر خشک روٹی اور چند گھونٹ پانی دیے جاتے۔ بعض اوقات دنوں تک بھوکا رکھا جاتا تاکہ جسمانی کمزوری ذہنی شکست میں بدل جائے۔

آہنی تابوت میں دفن

تفتیش کے بعد عماد نَبہان کو ایک تنگ آہنی پنجرے میں پھینک دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں

“یہ قید خانہ نہیں بلکہ ایک تابوت تھا۔ میں نہ سیدھا لیٹ سکتا تھا نہ ہل سکتا۔ دن میں صرف ایک بار پائپ کے ذریعے مائع دیا جاتا۔ میں نے وقت کا احساس کھو دیا تھا۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میں زندہ نہیں رہا”۔

اسی عقوبت خانے میں کئی دوسرے قیدیوں کی حالت بگڑ گئی۔ کچھ ہوش کھو بیٹھے، کچھ کی لاشیں خاموشی سے اٹھالی گئیں۔

گندگی، بیماری اور موت

بعد ازاں انہیں دیگر جیلوں میں منتقل کیا گیا جہاں حالات بدتر تھے۔ صفائی نہ ہونے کے باعث قیدیوں کے جسم پر زخم اور پھوڑے نکل آئے۔ نَبہان بتاتے ہیں:

“کئی اسیر خارش اور انفیکشن سے مر گئے۔ کسی کو دوا نہیں دی گئی۔ گندے کمبل، بھوک اور تعفن نے ہر سانس کو عذاب بنا دیا تھا”۔

نفسیاتی شکنجہ

قابض تفتیش کاروں نے قیدیوں کے حوصلے توڑنے کے لیے نفسیاتی حربے استعمال کیے۔ عماد نَبہان کہتے ہیں۔

“مجھے روز بتایا جاتا کہ میرا خاندان ملبے کے نیچے دب گیا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ٹوٹ جاؤں۔ مگر میں نے خاموشی کو اپنا ہتھیار بنایا”۔

چند ہفتوں بعد انہیں معلوم ہوا کہ واقعی ان کے کچھ رشتہ دار شہید ہو چکے ہیں، لیکن انہوں نے صبر کو اپنی مزاحمت بنا لیا۔

“ہم بھوک سے لڑتے تھے، مگر ہار نہیں مانتے تھے”

قابض جیلوں میں قیدیوں کو صرف اتنا کھانا دیا جاتا کہ وہ زندہ رہ سکیں

عماد نَبہان کہتے ہیں “ہم تینوں معمولی خوراکیں جمع کر کے ایک وقت میں کھاتے تاکہ جسم میں کچھ طاقت باقی رہے۔ بھوک ہماری سب سے بڑی آزمائش تھی، مگر ہم نے کبھی مزاحمت کا خواب نہیں چھوڑا”۔

اسرائیلی خفیہ کارندوں کے جال

انہوں نے انکشاف کیا کہ کچھ جیلوں میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی اپنے کارندوں کو قیدیوں کے بھیس میں رکھتی ہے۔

“انہیں ‘عصافیر’ کہا جاتا ہے۔ وہ ہمارے درمیان رہ کر معلومات حاصل کرتے۔ ہم ان سے محتاط رہنا سیکھ گئے تھے”۔

عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں

عماد نَبہان کی یہ گواہی صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ پوری قوم کے زخموں کی کہانی ہے۔ اسرائیلی عقوبت خانوں میں روا رکھے جانے والے یہ مظالم چوتھے جنیوا کنونشن اور انسدادِ تشدد کے بین الاقوامی معاہدے (1984ء) کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے سدیه تیمان عقوبت خانےمیں ہونے والے جرائم کی آزادانہ بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

اسرائیلی جیلیں اب محض قید خانے نہیں رہے بلکہ وہ زندہ قبریں بن چکے ہیں جہاں فلسطینیوں سے ان کی انسانیت چھینی جاتی ہے۔ عماد نَبہان جیسے درجنوں اسیران آج بھی جسمانی طور پر آزاد ہیں مگر ذہنی طور پر ان لوہے کے تابوتوں میں قید ہیں جنہیں دنیا دیکھنے سے انکاری ہے۔

یہ کہانی غزہ کے ایک شخص کی نہیں، بلکہ پوری فلسطینی قوم کی اجتماعی اذیت کا استعارہ ہے۔ جب ایک انسان آہنی تابوت میں زندہ رہنے پر مجبور ہو تو یہ سوال پوری دنیا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے ۔کیا انسانیت واقعی زندہ ہے؟۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan