Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

صیہونیزم

غزہ میں فلسطینی لڑکی کی دردناک داستان: ”مرنے والے بچ گئے، بچنے والے مر گئے“

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

غزہ کے شمالی علاقے بیت لاھیا کے ملبے تلے سے ایک نوجوان فلسطینی لڑکی آیہ ابو نصر کی آواز اٹھی، جس میں دکھ، کرب اور صبر کی کہانی ایک ساتھ بولتی ہے۔ اس نے اپنی داستان سیاہی سے لکھی نہ کاغذ پر، بلکہ آنسوؤں، یادوں اور بے پایاں غم کے ساتھ سنائی۔ یہ ایک ایسی سچی روداد ہے جو اس جنگ کے دوران غزہ کے شہریوں پر گذرنے والے بدترین ایام کی گواہی دیتی ہے۔

29 سالہ آیہ ابو نصر نے سنہ2024ء کے 29 اکتوبر کو بیت لاھیا کے ایک پانچ منزلہ رہائشی عمارت پر قابض اسرائیل کے بمباری حملے میں اپنے خاندان کے 150 افراد کو کھو دیا تھا۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے گفتگو میں آیہ نے بتایا کہ وہ لمحہ ایسا تھا جب “ہر چیز بجھ گئی” اور اسی لمحے سے اس نے اپنی کتاب کا عنوان چنا: “غزہ میں مرنے والے بچ گئے اور بچنے والے مر گئے”۔

آگ اور خون میں لپٹی ہجرت کی داستان

آیہ کہتی ہے کہ جنگ نے اسے کوئی اختیار نہیں دیا۔ “جنگ میری زندگی میں ایسے داخل ہوئی جیسے اندھیری رات کسی روشن گھر پر چڑھ دوڑے۔ اس نے میرا گھر، میرا خاندان، میرا کام اور میرا امن سب چھین لیا”۔

قابض اسرائیل کی جانب سے بار بار جنوبی غزہ کی طرف نقل مکانی کی دھمکیوں اور انتباہات کے باوجود آیہ نے آخری لمحے تک شمالی غزہ میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ مگر جب جارحیت شدت اختیار کر گئی، تو اسے بھی زبردستی ہجرت کے اس کٹھن سفر پر نکلنا پڑا، جہاں راستے میں ٹینک اور لڑاکا طیارے اس کے سر پر منڈلا رہے تھے۔

وہ ان لمحات کو یوں یاد کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ “وہ دن خوفناک تھا، ٹینک ہمارے ساتھ چل رہے تھے، قابض فوجی تلاشی لے رہے تھے، توہین کر رہے تھے، گرفتاریاں کر رہے تھے اور میری ماں روتی تھی کہ وہ اپنے بیٹوں کو شمال میں چھوڑ آئی ہے”۔

اسی لمحے آیہ نے طے کر لیا کہ “میرا فرض ہے کہ میں سچائی کو محفوظ رکھوں، تاکہ دنیا جانے کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے”۔

غم سے خدمتِ خلق تک

اپنے خاندان کے 150 افراد کو کھونے کے بعد بھی آیہ نے درد کو خود پر غالب نہیں آنے دیا۔ وہ نفسیاتی مدد کے مراکز میں کام کرنے لگی، جہاں وہ جنگ سے متاثرہ خواتین کو حوصلہ دینے لگی۔

آیہ کہتی ہےکہ “یہ قبضہ میری طاقت کو نہیں توڑ سکتا اور نہ ہی میری آواز کو خاموش کر سکتا ہے”۔

اپنی کتاب کے ایک باب “پہلی ملاقات” میں وہ بیان کرتی ہے کہ کس طرح اس نے کھو جانے کے احساس کے باوجود دوبارہ زندگی کی طرف لوٹنے کی کوشش کی اور خود جیسی متاثرہ عورتوں کے لیے سہارا بنی۔

جہنم کے بیچ سے اٹھتی آوازیں

آیہ کی کتاب میں درجنوں فلسطینی خواتین کی حقیقی کہانیاں درج ہیں۔ وہ ان ماؤں کا ذکر کرتی ہے جو اپنے بچوں کی لاشوں کے اوپر چیخیں مارتی رہیں، ان مردوں کا جو گولیوں اور بمباری کے سائے میں امداد کی قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں اور ان تہواروں کا جو اب صرف ویران خیموں اور آنسوؤں کے ساتھ گزرتے ہیں۔

وہ خیموں کی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ وہاں نہ کوئی پرائیویسی ہے، نہ ادویات، نہ علاج کی سہولت۔ بیمار اپنے علاج کے انتظار میں دنوں نہیں، مہینوں تک موت کے دہانے پر پڑے رہتے ہیں۔

غزہ سے دنیا تک

آیہ ابو نصر کی کتاب کو سلطنتِ عمان میں باضابطہ طور پر شائع کیا گیا، جہاں اس کا پہلا اجراء ہوا، اور اب یہ کئی بین الاقوامی کتب خانوں میں دستیاب ہے۔

آیہ کہتی ہے کہ یہ کتاب محض ایک ادبی تخلیق نہیں بلکہ ایک تاریخی دستاویز ہے، جو دنیا کو یہ بتاتی ہے کہ “غزہ میں جو کچھ ہوا، وہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اپنے جسم سے جھیلا”۔

وہ مزید کہتی ہےکہ “میں نے لکھا تاکہ میرے پیاروں کے نام مٹ نہ جائیں، اور غزہ دو مرتبہ نہ مرے؛ ایک بار ملبے تلے اور دوسری بار دنیا کی خاموشی میں”۔

آیہ ابو نصر صرف ایک بچ جانے والی نہیں، بلکہ ایک گواہ اور مزاحم ہے۔ اس نے لفظوں سے مزاحمت کی، تاکہ دنیا یاد رکھے کہ ہر ایک عدد کے پیچھے ایک انسان ہے، ہر خبر کے پیچھے ایک گھر ہے، جو کبھی قہقہوں سے گونجتا تھا۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan