Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

پی ایل ایف نیوز

اردن اور اسرائیل خفیہ تعلقات کا تاریخی جائزہ

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
اردن کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسا مسلمان ملک ہے کہ جس نے ہمیشہ مسلمانوں کی پیٹھ پر خنجر گھونپا ہے ۔ چاہے وہ خنجر مصر کے خلاف ہو یا پھر شام کی حکومت کے خلاف یا پھر حالیہ جنگ میں فلسطینی مظلوم عوام کے خلاف ہو۔ اردن کا کردار ہمیشہ منافقت پر مبنی رہاہے۔ شاید اسی لئے شہید یحیٰ سنوار نے کہا تھا کہ غزہ کی لڑائی تمام منافقوں کو بے نقاب کر دے گی۔ اس مقالہ میں ہم اردن کے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا جائزہ پیش کریں گے کہ آخر آج تک اسرائیل کے ساتھ وفاداری نے اردن کو کون سی ترقی دی ہے ؟
اردن اور اسرائیل کے تعلقات کی کہانی غزہ جنگ سے کہیں پرانی ہے۔ اگرچہ بظاہر دونوں ممالک کئی دہائیوں تک ایک دوسرے کے دشمن رہے، جنگیں بھی لڑی ہیںلیکن پسِ پردہ رازداری، خفیہ ملاقاتوں اور سیاسی سمجھوتوں کی ایک لمبی تاریخ موجود ہے۔
1948 میںفلسطین کی سرزمین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام اور فلسطینی نَکبہ کے بعد عرب دنیا میں شدید ردعمل پیدا ہوا، مگر اردن کا کردار ہمیشہ کچھ مختلف رہا۔ یا یہ کہہ لیجئے کہ منافقانہ کردار شروع سے جاری رہا تو غلط نہیں ہو گا۔ شاہ عبداللہ اوّل (موجودہ شاہ عبداللہ دوم کے دادا) نے ابتدا ہی میں اسرائیل کے ساتھ خفیہ رابطے قائم کر لیے تھے، تاکہ مغربی کنارے (West Bank) پر اپنا کنٹرول یقینی بنایا جا سکے۔یہی خفیہ رابطے بعد میں اردن کی پالیسی کی بنیاد بنے یعنی فلسطین پر اثر و رسوخ برقرار رکھتے ہوئے اسرائیل سے مخاصمت سے گریز کرنے کی پالیسی۔آج بھی اردن اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں اگرچہ اردن کو مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کا کنٹرول کھونا پڑا، لیکن اس کے بعد بھی شاہ حسین نے اسرائیلی رہنماؤں کے ساتھ پوشیدہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
1970 کی دہائی میں، جب عرب دنیا میں فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کا زور بڑھ رہا تھا، اردن نےبلیک ستمبرکے نام سے ایک خونی آپریشن میں فلسطینی تنظیموں کو ملک سے نکال دیا۔ اس کے بعداردن حکومت کو اسرائیل اور مغرب کی جانب سےخاموش حمایت ملی۔اس سیاہ ستمبر میں نہ صرف فلسطینیوں کو نکالا گیا بلکہ فلسطینی عوام کی بڑی تعداد کو گولیوں کا نشانہ بھی بنایا گیا اور شاید اس لئے کہ امریکہ اور اسرائیل کو اپنی وفاداری کا یقین دلوایا جائے۔
متعدد اسرائیلی اور مغربی ذرائع کے مطابق، شاہ حسین نے 1970 سے 1994 کے درمیان کم از کم 30 خفیہ ملاقاتیں اسرائیلی وزرائے اعظم اور فوجی حکام سے کی تھیں۔ان ملاقاتوں کا مقصد ہمیشہ ایک ہی ر ہا کہ اردن کے تخت کی سلامتی کے بدلے اسرائیل کے ساتھ امن کی بنیادرکھنا۔یعنی اسرائیل کو یقین دلوانا کہ فلسطین اور فلسطینی عوام کے ساتھ وہ چاہے جو بھی کرے اردن کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہو گی اور پھر شاہ حسین کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئے اور آج تک اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کو اپنے مفادات کا تحفظ قرار دیتے ہیں۔
اکتوبر 1994 میں، امریکا کی سرپرستی میں اسرائیل اور اردن کے درمیان وادیِ عربہ امن معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ اس کے تحت دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات قائم کیے، سرحدی تنازعات حل کیے، اور پانی و سیکیورٹی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔اس معاہدے نے اردن کو امریکا سےکئی ارب ڈالر کی سالانہ امداد دلائی، جب کہ اسرائیل کو ایک مستحکم مشرقی سرحد میسر آئی۔ لیکن فلسطینی عوام اور عرب دنیا میں اس معاہدے کوخیانت سمجھا گیا، کیونکہ اس وقت بیت المقدس پر اسرائیلی قبضہ برقرار تھا، اور فلسطینی ریاست کا خواب اب بھی ادھورا۔
آج بھی غزہ میں نسل کشی جاری ہے اور اردن کا کردار ایسا ہی ہے کہ وہ غزہ سے زیادہ اسرائیل کی سلامتی کا خواہاں ہے۔ عملی اقدامات نے بھی ایسا ہی ظاہر کیا ہے جس کے باعث دنیا بھر کے مبصرین نے اردن کے اس رویہ کو دوغلا اور دوہرا پن قرار دیا ہے۔

1994 کے بعد اردن اور اسرائیل کے درمیان انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کا ایک باضابطہ نظام قائم ہوا۔ دونوں ممالک نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مشترکہ آپریشنز کیے، خصوصاً مغربی کنارے اور سرحدی علاقوں میں یہ آپریشن انجام دئیے گئے۔اس کے بعد سے ہی اردن میں فلسطینی مزاحمت کے قائدین اور افراد کے خلاف بھی کاروائیوں میں تیزی لائی گئی اور شکنجہ سخت کیا جانے لگا۔امریکی خفیہ ایجنسی CIA نے ان روابط میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اردن کا محفوظ اتحادی کا درجہ بڑھایا گیا، اور امریکی سینٹ کام نے اردنی فوجی اڈوں کو اپنے آپریشنز کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ان ساری مہربانیوں بدلے میں اردن حکومت کو واشنگٹن سے فوجی امداد، اسلحہ، اور داخلی استحکام کی ضمانت ملی۔یہ ضمانت اس بات کی دلیل ہے کہ اردن کے شاہ حسین نے اپنی خود مختاری اور حمیت کو امریکہ او ر اسرائیل کے ہاتھوں گروی رکھ دیا تھا۔
اردن کے عوام نے ہمیشہ اردن حکومت کے ان اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اپنے غم وغصہ کا اظہار بھی کیا ہے۔ یعنی حالیہ غزہ جنگ میں بھی اردن کے عوام نے مظاہرے کئے اور وہ جہاں امریکہ اور اسرائیل سے نالاں تھے وہاں ساتھ ساتھ اپنی حکومت کے دوغلے اور منافقانہ رویہ سے بھی شدید نالاں تھے۔یہ بات یاد رکھی جائے کہ اردن میں اس وقت بھی عوام کی اکثریت فلسطینی النسل ہے، جو اسرائیل کے خلاف سخت جذبات رکھتی ہے۔ لہٰذا حکومت کو ہر وقت ایک نازک توازن برقرار رکھنا پڑ تا ہے۔ایک طرف مغربی اتحادیوں کو مطمئن کرنا، اور دوسری طرف اپنے عوام کو غصے سے قابو میں رکھنا۔اس عنوان سے اردن حکومت کچھ ایسے اقدامات انجام دیتی ہے جس سے وہ عوام کو یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ غزہ کے لوگوں کے ساتھ ہے لیکن حقیقت میں اردن حکومت اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیتی ہے۔اسی توازن کی پالیسی نے آج اردن کو ایک دو رخا کردار عطا کیا ہے۔ ایک ایسا ملک جو عوامی سطح پر فلسطین کے ساتھ ہے، مگر ریاستی سطح پر اسرائیل کے قریب تر ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اردن اور اسرائیل کے تعلقات کی بنیاد دہائیوں پرانی خفیہ ملاقاتوں اور سیاسی سمجھوتوں میں پیوست ہے۔ 1994 کا وادیِ عربہ معاہدہ ان تعلقات کی باقاعدہ تصدیق تھا، جس کے بعد اردن نے عملاً اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کو معمول بنا دیا۔ یہی پسِ منظر غزہ کی موجودہ جنگ میں اردن کے متضاد رویے کو سمجھنے کے لیے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan