Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

صیہونیزم

لبنان پر اسرائیلی فضائی حملے، انسانی نقصان کی اطلاعات

غز ہ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

غزہ میں قابض اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ نسل کشی کی جنگ کے دوران لاپتہ ہونے والے شہریوں کے معاملے پر قائم قومی کمیٹی نے عالمی برادری سے فوری اور مؤثر مداخلت کی اپیل کی ہے۔ کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ بین الاقوامی ماہر ٹیموں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ ملبے تلے دبے ہزاروں فلسطینیوں کی لاشیں نکال سکیں جنہیں قابض فوج نے دانستہ طور پر اجتماعی قبروں میں تبدیل شدہ گھروں کے نیچے دفن کر دیا ہے۔

غزہ شہر میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران کمیٹی کے ترجمان علاءالدین العکلوک نے بتایا کہ غزہ پٹی عملاً دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی قبرستان بن چکی ہے۔ ان کے مطابق تقریباً دس ہزار فلسطینی تاحال ملبے تلے لاپتہ ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین، بچوں اور بزرگوں کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مظلوم شہداء اپنے ہی گھروں کے ملبے تلے دفن ہیں، جہاں انہیں نہ کفن نصیب ہوا نہ دفن کے اسلامی تقاضے پورے ہو سکے۔ “ہزاروں لاشیں گل سڑ رہی ہیں، جنہیں نکالنے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی۔ یہ انسانیت کی توہین ہے اور عالمی برادری کی بے حسی کا بدترین مظہر۔”

علاءالدین العکلوک نے عالمی اداروں، خصوصاً اقوام متحدہ، بین الاقوامی ریڈ کراس اور انسانی حقوق کے اداروں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے غزہ کی بدترین انسانی تباہی کے باوجود کوئی فعال کردار ادا نہیں کیا۔ “ہمیں دکھ ہے کہ انسانی حقوق کے وہ ادارے جو لاپتہ افراد کے لیے عالمی مہمات چلاتے ہیں، غزہ کے شہداء کے معاملے میں مکمل طور پر خاموش ہیں”۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کی دوہری پالیسی انتہائی افسوسناک ہے”جہاں اسرائیلی قیدیوں یا لاشوں کی بازیابی کے لیے غیر معمولی دلچسپی دکھائی جاتی ہے، وہیں ہزاروں فلسطینیوں کی لاشوں کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ یہ کھلی جانبداری اور عالمی انصاف کے اصولوں کی توہین ہے”۔

کمیٹی نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام سیاسی، قانونی اور انتظامی ذرائع بروئے کار لائیں تاکہ لاپتہ افراد کے کیس کی بین الاقوامی سطح پر پیروی کی جا سکے اور متاثرہ خاندانوں کو سہارا فراہم کیا جا سکے۔

العکلوک نے عالمی اداروں سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر بھاری مشینری، خصوصی ماہرین اور جدید تکنیکی آلات کے ساتھ غزہ میں داخل ہوں تاکہ لاشوں کی بازیابی اور DNA ٹیسٹ کے ذریعے شناخت کا عمل شروع کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ “ہزاروں انسانوں کو ملبے تلے گمشدہ چھوڑ دینا انسانیت کے ہر اصول کے منافی ہے۔ یہ شہداء عزت دار تدفین کے حق دار ہیں۔”

انہوں نے تعمیر نو کے عمل کو فوری طور پر شروع کرنے کا بھی مطالبہ کیا جس کا پہلا مرحلہ ملبہ ہٹانے اور لاشوں کی بازیابی ہونا چاہیے۔

سرکاری اطلاعاتی دفتر کے ڈائریکٹر اسماعیل الثوابتہ نے قابض اسرائیل کی جانب سے بھاری مشینری کے داخلے پر پابندی کو “انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق قابض ریاست کو ایسے حالات میں سینکڑوں مشینوں کے داخلے کی اجازت دینی چاہیے تھی، مگر وہ اس پر عمداً رکاوٹ ڈال رہی ہے تاکہ اپنے جرائم کے شواہد چھپائے جا سکیں۔

یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب قابض اسرائیل اپنے اسیر فوجیوں کی لاشیں تلاش کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ صہیونی میڈیا کے مطابق قابض نے ایک ہفتہ قبل صرف اپنے فوجیوں کی لاشوں کے لیے محدود پیمانے پر کچھ بھاری مشینری غزہ میں داخل ہونے دی، جبکہ ہزاروں فلسطینیوں کی لاشوں کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

دوسری جانب غزہ کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ 11 اکتوبر کے بعد سے اب تک 513 فلسطینیوں کی لاشیں سڑکوں اور عوامی مقامات سے نکالی جا چکی ہیں، جو قابض اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنی تھیں۔

قابض اسرائیل نے 8 اکتوبر سنہ2023ء کو امریکہ کی براہ راست سرپرستی میں غزہ پر اپنی نسل کشی کی جنگ مسلط کی تھی۔ دو سال سے جاری اس وحشیانہ درندگی میں اب تک 68 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 70 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ غزہ کی 90 فیصد بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔

غزہ کی سرزمین پر آج بھی ہزاروں مائیں اپنے بچوں کی لاشوں کی منتظر ہیں، ملبے تلے دبے شہداء انصاف کی پکار ہیں، اور دنیا کی خاموشی قابض اسرائیل کے جرائم کی شراکت دار بن چکی ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan