Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

زہران ممدانی کی فتح — صہیونی اثر و رسوخ کی شکست

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

نیویارک کے بلدیاتی انتخابات کا اختتام افریقہ و بھارت نژاد امریکی سیاست دان زہران ممدانی کی تاریخی کامیابی کے اعلان پر ہوا۔ یہ لمحہ امریکہ کے سیاسی مزاج میں ایک گہری علامتی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔ ممدانی جو قابض اسرائیل کے خلاف اپنے دو ٹوک موقف اور فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم کے خاتمے کے مطالبات کے باعث معروف ہیں انتخابی مہم کے دوران امریکہ میں اسرائیل کے لیے غیر مشروط حمایت کے خلاف ایک نادر اور جری آواز بن کر ابھرے۔

ممدانی کی جیت نے اسرائیلی حلقوں میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا۔ ان کے نزدیک یہ نتیجہ مغربی دنیا میں ایک بڑھتے ہوئے سیاسی اور عوامی رجحان کا مظہر ہے، جو اندرونِ امریکہ سماجی انصاف اور فلسطین میں انسانی حقوق کی جدوجہد کو ایک دوسرے سے مربوط سمجھتا ہے۔ اس کے برعکس فلسطینی عوام اور ان کے حامیوں نے ممدانی کی جیت کو ایک اخلاقی اور معنوی فتح قرار دیا، جو غزہ میں جاری نسل کشی کے دوران عالمی ضمیر میں پیدا ہونے والی تبدیلی کی غمازی کرتی ہے۔

یہ کامیابی اس بین الاقوامی تناظر میں سامنے آئی ہے جب دنیا میں بیانیے تیزی سے بدل رہے ہیں۔ غزہ میں ہونے والی نسل کشی نے نہ صرف انسانی ضمیر کو جھنجھوڑا بلکہ مغربی سیاسی و اخلاقی ڈھانچے کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ اس نے ان نظریاتی جوازوں پر سوال اٹھا دیے جو برسوں سے قابض اسرائیل کی پالیسیوں کو قانونی و اخلاقی تحفظ دیتے آئے تھے۔

یوں ممدانی کی یہ فتح محض ایک مقامی انتخابی کامیابی نہیں بلکہ شعور کی سطح پر جاری عالمی کشمکش کا مظہر ہے۔ایک جانب وہ قوتیں جو اسرائیلی بیانیے کو دوام دینا چاہتی ہیں اور دوسری جانب وہ جو سچائی کو بے نقاب کر کے قابض کو جواب دہ بنانا چاہتی ہیں۔

امریکی چینل “سی بی ایس نیوز” کے مطابق نیویارک کے کئی شہریوں نے اس انتخابی مرحلے کو اسرائیل اور غزہ کی جنگ پر ایک غیر رسمی ریفرنڈم قرار دیا۔ ممدانی کی انتخابی مہم کا مرکزی نکتہ قابض اسرائیل کی پالیسیوں کی مخالفت اور فلسطینیوں کے ساتھ انصاف کا مطالبہ تھا۔

اسرائیلی پریشانی اور غصہ

قابض اسرائیلی میڈیا نے ممدانی کی کامیابی پر شدید اضطراب کا اظہار کیا۔ اسرائیلی صحافی اریئل کاہانا نے لکھا کہ “ممدانی کی جیت امریکہ میں ایک سیاسی زلزلہ ہے”۔ اس نے کہا کہ نیویارک نے اپنی قیادت ایک “کمیونسٹ اور شدت پسند اسلامی رجحانات کے حامی” شخص کے حوالے کر دی ہے۔ کاہانا نے اپنے مضمون میں خبردار کیا کہ مغرب کے سیاسی نظام میں “مسلم سیاست دانوں” کا اثر بڑھ رہا ہے اور یہ ایک نئے سیاسی رجحان کا اشارہ ہے جو “فلسطینی مزاحمت سے ہمدردی رکھتا ہے اور اس کے ہتھیار چھیننے کی مخالفت کرتا ہے”۔

اس نے آخر میں دھمکی آمیز لہجے میں لکھاکہ “اگر مغرب بیدار نہ ہوا تو وہ ان کے قدموں میں گرجائے گا جو شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں”۔

قابض اسرائیل میں صدمہ

اسرائیلی امور کے ماہر محمد ہلسہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے گفتگو میں کہاکہ “قابض اسرائیل میں حقیقی صدمہ پایا جاتا ہے، کیونکہ پہلی بار ایک ایسی شخصیت کسی مرکزی امریکی شہر کی قیادت تک پہنچی ہے جو قابض کو ایک مجرمانہ نظام سمجھتی ہے اور اس کے رہنماؤں کے احتساب کا مطالبہ کرتی ہے۔”

انہوں نے کہا کہ “ممدانی کی کامیابی ایک نئے عالمی رجحان کی شروعات ہے جو غزہ میں قابض اسرائیل کی نسل کشی کے مناظر سے جنم لے رہا ہے۔ قابض کا بیانیہ مغرب میں پہلی مرتبہ لرز چکا ہے۔”

ہلسہ نے کہاکہ “غزہ نے عالمی شعور کو بدل دیا ہے۔ قابض اسرائیل اب وہ اخلاقی برتری برقرار نہیں رکھ سکتا جو وہ دہائیوں سے دعویٰ کرتا آیا تھا۔ آج امریکی سیاست دان کھل کر قابض کے جرائم پر تنقید کرنے کی جرات پا رہے ہیں”۔

ان کے مطابق “قابض ریاست بخوبی جانتی ہے کہ یہ لمحہ اس کے لیے خطرناک ہے۔ مغرب میں ایک نیا سیاسی رجحان ابھر رہا ہے جو قابض مخالف اور انصاف پر مبنی ہے اور اس کی بنیاد نیویارک میں رکھی گئی ہے۔”

انہوں نے کہاکہ “گذری صدی شاید قابض اسرائیل کی مغربی سیاست میں طاقت کا دور تھی، مگر غزہ کی جنگ اس کے زوال کی ابتدا بن سکتی ہے۔”

34 سالہ ممدانی نے 50.4 فیصد ووٹ حاصل کیے، جب کہ سابق گورنر اینڈریو کومو کو 41.3 فیصد ووٹ ملے۔ ریپبلکن امیدوار کرٹس سلیوا 7.5 فیصد کے فرق سے پیچھے رہے۔

زہران ممدانی نیویارک کی تاریخ کے پہلے میئر ہیں جنہوں نے کھل کر غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی مخالفت کی، قابض اسرائیل کو نسلی امتیاز پر مبنی ریاست قرار دیا اور اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست کہا۔

امریکی میڈیا کے مطابق ممدانی کی جیت نیویارک میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی ہے، خصوصاً اس شہر میں جو قابض اسرائیل کے باہر سب سے بڑا یہودی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ یہ تبدیلی امریکی عوام میں قابض ریاست کے مظالم کے خلاف بڑھتے ہوئے شعور اور ایک نئے سیاسی رجحان کی علامت ہے، جو غزہ میں قابض کی درندگی کے بعد ابھر رہا ہے۔

ممدانی کے موقف اور جدوجہد

اپنی انتخابی مہم کے دوران ممدانی نے کہاکہ “قوموں کے وجود کا حق ظلم اور جارحیت کا جواز نہیں بن سکتا۔ قابض اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف نوآبادیاتی نسل پرستانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے”۔

انہوں نے “اتحاد یہود متحدہ نیویارک” سے ملاقات میں کہاکہ “قابض اسرائیل کو ایک ایسی ریاست بننا ہوگا جو سب کو مساوی حقوق دے، نہ کہ ایسی ریاست جو مذہب یا نسل کی بنیاد پر امتیاز برتے”۔

ٹی وی چینل “فوکس 5” سے گفتگو میں انہوں نے کہاکہ “میں کسی ایسی ریاست کی حمایت نہیں کر سکتا جو مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے درجے طے کرے۔”

ممدانی تحریک مقاطعہ (BDS) کے حامی رہے ہیں۔ انہوں نے نیویارک اور قابض اسرائیل کے درمیان مشترکہ اقتصادی کونسل کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور غیر قانونی بستیوں کی مالی معاونت پر پابندی کے لیے قانون پیش کیا۔

سنہ 2014 میں دورانِ تعلیم انہوں نے “طلبہ برائے انصافِ فلسطین” کی شاخ قائم کی اور لکھا: “اسرائیلی جامعات نوآبادیاتی جرائم میں براہِ راست اور بالواسطہ شریک ہیں۔”

7 اکتوبر سنہ2023ء کے بعد ممدانی نے خبردار کیا تھا کہ قابض اسرائیلی ردِعمل غزہ میں قتل عام کا سبب بنے گا۔ انہوں نے کہا: “حقیقی امن کا آغاز قبضے کے خاتمے اور نسلی امتیاز کے نظام کے انہدام سے ہوتا ہے۔”

انہوں نے قابض کی جنگ کو “نسل کشی” قرار دیتے ہوئے واشنگٹن پر شریکِ جرم ہونے کا الزام لگایا۔ MSNBC سے انٹرویو میں کہا: “اگر میں نیویارک کا میئر ہوتا تو بنجمن نیتن یاھو کو گرفتار کر لیتا، اور میں یہ ضرور کروں گا۔”

ممدانی نے ہولوکاسٹ کی یادگاری قراردادوں پر دستخط کرنے سے انکار کیا اور کہا: “ماضی کی یاد کو موجودہ مظالم کے جواز کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔”

غزہ کی جنگ ممدانی کی کامیابی کا پس منظر

تجزیہ نگار ساری عرابی کے مطابق ممدانی کی جیت کے پسِ پشت کئی عوامل ہیں—پچھلے میئروں کی بدعنوانی، “سوشلسٹ ڈیموکریٹس” کی مضبوط تنظیمی ساخت، اور امریکی سماج کے اس طبقے کا ردِعمل جو ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں اور ڈیموکریٹ پارٹی کے جھوٹ سے تنگ آ چکا ہے، خصوصاً غزہ میں قابض اسرائیل کی نسل کشی کے بعد۔

عرابی کے مطابق، انتخابات نے واضح کیا کہ امریکی معاشرہ دائیں بازو کی طرف نہیں بلکہ ایک ترقی پسند بائیں بازو کی سمت بڑھ رہا ہے، جو قابض اسرائیل کی پالیسیوں کا مخالف ہے، اگرچہ وہ مکمل طور پر فلسطینی مزاحمتی موقف کا شریک نہیں۔

انہوں نے کہا کہ دائیں بازو، ریاستی ادارے، اور صہیونی لابی اس ابھرتے ہوئے رجحان کے لیے اب بھی رکاوٹ ہیں، لیکن یہ عمل ایک تدریجی اور امید افزا آغاز ہے۔

امید کی کرن

فلسطینی تجزیہ نگار لمی خاطر نے اپنے فیس بک پیغام میں لکھا: “ہم زہران ممدانی یا کسی اور سے فلسطین کے لیے عملی معجزے کی توقع نہیں رکھتے، مگر یہ حقیقت کہ نیویارک جیسے شہر میں ایسی حیران کن تبدیلی رونما ہوئی، خود ایک بڑی علامت ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ کے قلب میں بھی ایسے باحوصلہ اور انصاف پسند لوگ موجود ہیں جو قابض اسرائیل کے جرائم اور مغرب کی منافقت کے خلاف آواز اٹھانے سے نہیں ڈرتے۔”

انہوں نے کہا کہ “جو کچھ بھی قابض اسرائیل اور اس کے حامیوں کو تکلیف پہنچائے وہ امید کا سبب بنتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔ طوفان الاقصیٰ اور غزہ میں درندگی کے بعد اب تبدیلی کی لہر ناقابلِ واپسی ہو چکی ہے۔”

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan