Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

اسرائیل

غزہ کی نسل کشی نے اسرائیل کو عالمی تنہائی میں دھکیل دیا

مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن

تل ابیب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ برائے قومی سلامتی کے تحقیقی مرکز نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ کے خلاف جاری نسل کشی کی جنگ نے اس کی بین الاقوامی حیثیت کو بُری طرح مجروح کیا ہے اور خطے میں طاقت کے توازن کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ جنگ اسرائیل کو ایک ایسے بحران میں دھکیل چکی ہے جس سے نکلنے کے لیے اسے اپنی قومی سکیورٹی پالیسی کی ازسرِ نو تشکیل ناگزیر ہو چکی ہے۔

تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قابض اسرائیل کی عالمی سطح پر ساکھ میں نمایاں کمی آئی ہے اور دنیا بھر میں اس کے خلاف نفرت اور غم و غصے کی لہر بے مثال حد تک بڑھ چکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق نام نہاد ’’ٹرمپ منصوبے‘‘ کے پہلے مرحلے میں ہونے والی عارضی جنگ بندی نے وقتی طور پر اسرائیل کی بگڑتی تصویر کو روکنے کی کوشش تو کی مگر اس کی شبیہ میں کوئی حقیقی بہتری پیدا نہیں ہوئی۔

جنگ نے عالمی تعلقات کا نقشہ بدل دیا

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کی جنگ نے عالمی تعلقات میں طاقت اور عسکری قوت کے مفہوم کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے، جسے مغربی لبرل دنیا خاص طور پر یورپ میں گذشتہ چند دہائیوں سے مسترد کیا جا رہا تھا۔

رپورٹ کے مطابق تحریکِ حماس کی کامیابی، جس نے متعدد ممالک کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر آمادہ کیا، اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے یوکرین کے مشرقی علاقوں میں اپنے اہداف حاصل کرنے کے امکانات نے اس رجحان کو مضبوط کیا ہے کہ جنگ اب بھی سیاسی مقاصد کے حصول کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔

رپورٹ نے مزید کہا کہ ’’شیعہ محور‘‘ کی کمزوری اور امریکہ کے زیر اثر ’’سنی-اخوانی محور‘‘ کے ابھار نے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو ازسرِ نو تشکیل دیا ہے۔

اگرچہ رپورٹ کے مطابق یہ تبدیلی ابھی کسی ’’سنی انتہا پسند محور‘‘ کی شکل میں ظاہر نہیں ہوئی مگر قطر اور ترکیہ کے بڑھتے ہوئے کردار نے غزہ اور خطے میں ایسے نئے مواقع اور سکیورٹی چیلنجز پیدا کیے ہیں جن سے قابض اسرائیل کو نمٹنا ہوگا۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ جنگ کا ایک بڑا نتیجہ فلسطینی-اسرائیلی تنازعے کا بین الاقوامی ہونا ہے، کیونکہ اب امریکہ ایک مرکزی کردار کے طور پر میدان میں موجود ہے جو اسرائیلی کارروائیوں کو محدود کرنے پر مجبور ہے۔

بین الاقوامی افواج کی ممکنہ تعیناتی کو رپورٹ نے ایک اہم اسٹریٹجک تبدیلی قرار دیا، تاہم کہا کہ ابھی یہ طے نہیں کہ یہ قدم وقتی ہے یا ایک مستقل تبدیلی کی تمہید جس کے مطابق اسرائیل کو اپنی پالیسیوں میں بنیادی ترمیم کرنی ہوگی۔

داخلی انتشار اور سیاسی انارکی

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جنگ نے اسرائیلی معاشرے میں گہرے سیاسی اور سماجی اختلافات کو بے نقاب کر دیا ہے۔ سنہ2023ء میں عدالتی نظام کو کمزور کرنے کے منصوبے کے باعث اسرائیل پہلے ہی شدید اندرونی بحران کا شکار تھا۔

جنگ کے مقاصد، قیدیوں کے معاملے اور غزہ کے بعد کے حالات پر اختلافات نے اس تقسیم کو مزید بڑھا دیا ہے اور اسرائیلی معاشرہ سیاسی بنیادوں پر ’’داخلی تصادم‘‘ کی کیفیت میں داخل ہو چکا ہے۔

رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ قابض اسرائیل کو تیزی سے بدلتے علاقائی اور عالمی حالات کے پیش نظر ایک نئی قومی سکیورٹی پالیسی وضع کرنی ہوگی، کیونکہ جنگ بندی غیر مستحکم ہے اور ابھی تک یہ واضح نہیں کہ جنگ واقعی ختم ہوئی یا نہیں۔

انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اب پُرانی حکمتِ عملی پر چلنا ممکن نہیں رہا، اس لیے قابض اسرائیل کو اپنی پالیسیوں کا ازسرِ نو جائزہ لینا ہوگا اور فوجی اسٹریٹجی کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا پڑے گا۔

جنگ کے سبق اور اندرونی کمزوریاں

رپورٹ نے اس بات پر زور دیا کہ اس جنگ کے نتائج صرف عسکری نہیں بلکہ سماجی اور داخلی سطح پر بھی نمایاں ہیں۔ اسرائیلی معاشرہ اندرونی طور پر کمزور اور غیر محفوظ ہو چکا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آنے والا سال اسرائیل کے لیے ایک فیصلہ کن انتخابی سال ہوگا، لیکن امکانات اس بات کے ہیں کہ انتخابی مہمیں ذمہ داری اور اصلاح کے بجائے باہمی الزام تراشی اور داخلی نفرت کو ہوا دیں گی۔

رپورٹ نے انتباہ کیا کہ یہ داخلی تقسیم اور سیاسی تشدد اسرائیل کو مزید کمزور کرے گا اور غزہ کی جنگ کے بعد اس کی داخلی بحران کو مزید گہرا کرے گا۔ قابض اسرائیل اس وقت ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں اسے اپنی پالیسیوں کی مکمل ازسرِ نو تشکیل کی ضرورت ہے، کیونکہ غزہ میں کی گئی نسل کشی نے اسے نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ اندرونی طور پر بھی کمزور کر دیا ہے۔

یورپ میں فلسطین کے لیے نئی بیداری — ’’جنریشن زی‘‘ کا کردار

غزہ میں جاری نسل کشی کے دو برسوں میں لاکھوں یورپی عوام فلسطینی عوام کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے۔ صرف یورپ بھر میں 25 ممالک کی 800 شہروں میں فلسطینی کاز کے حق میں 45 ہزار سے زائد اجتماعات اور مظاہرے منعقد ہوئے۔

اردنی مصنف محمود العوادات کے مطابق جنگ کے بعد یورپ میں رائے عامہ کا فلسطین کے حق میں بدلنا عالمی سطح پر ایک تاریخی موڑ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی زیادہ تر نوجوان یورپی نسل یعنی ’’جنریشن زیڈ‘‘ کی بدولت ہے جو فلسطینی مظلومیت کو شدت سے محسوس کرتی ہے۔

الجزیرہ نیٹ پر شائع اپنے مضمون میں العوادات لکھتے ہیں کہ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق 14 سے 18 سال کے نوجوانوں میں فلسطینی عوام کی حمایت سب سے زیادہ ہے۔ اس تبدیلی کی بڑی وجہ ڈیجیٹل دور میں آزادانہ معلومات تک رسائی ہے جس نے مغربی میڈیا میں قابض اسرائیل کے جھوٹے بیانیے کو توڑ دیا ہے جو ’’ہولوکاسٹ‘‘ کو جواز بنا کر اپنی درندگی چھپاتا آیا تھا۔

العوادات کے مطابق جدید مغربی تعلیمی نظام میں سماجی انصاف اور انسانی حقوق کے تصورات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اور فلسطینی کاز ان اصولوں کی ایک زندہ مثال بن چکی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بچوں اور خواتین کے حقوق پر مرکوز نئی یورپی فکری فضا میں غزہ میں ہونے والی نسل کشی کی تصاویر نے نوجوانوں کے دلوں میں گہری ہمدردی پیدا کی ہے۔

مصنف کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر انسانی شعور کے بیدار ہونے سے نئی نسل کے ذہن میں دنیا کی مظلوم اقوام ایک دوسرے سے جڑ گئی ہیں، اور اسی تناظر میں فلسطین ان کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔

العوادات کے مطابق یہ فکری و تہذیبی بیداری قابض اسرائیل کے لیے ایک اسٹریٹجک خطرہ بن چکی ہے جو رفتہ رفتہ یورپ اور شمالی امریکہ کی نئی نسلوں کی ہمدردیاں کھو رہی ہے۔ نتیجتاً اس کی بین الاقوامی ساکھ مزید متزلزل ہو رہی ہے اور اس کی سیاسی تنہائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan