غزہ ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
غزہ کی پانچ سالہ بچی سلمیٰ جو پیدائشی طور پر جسمانی معذوری کا شکار ہے اور اپنے پیروں پر چلنے سے قاصر ہے، ایک طویل علاجی سفر کے آغاز پر تھی۔ والدین کے دل میں امید تھی کہ محنت اور صبر سے ایک دن ان کی ننھی بیٹی اپنے قدموں پر چلنے لگے گی۔ مگر قابض اسرائیل کی جنگی درندگی نے ان تمام خوابوں کو مٹی میں ملا دیا۔
سلمیٰ کا علاج اور بحالی کا مرحلہ دو سال قبل شروع ہوا تھا۔ ابتدا غزہ میں تھی اور بعد ازاں بیرون ملک طویل معالجے کا منصوبہ تھا۔ بچی کی حالت میں معمولی بہتری آ رہی تھی، لیکن پھر قابض اسرائیل نے غزہ پر اپنی نسل کشی کی جنگ مسلط کر دی۔ اس جنگ نے سلمیٰ کے علاج کا سلسلہ منقطع کر دیا، برسوں کی محنت ضائع ہو گئی اور والدین کے خواب ادھورے رہ گئے۔
آج سلمیٰ اپنے پانچ رکنی خاندان کے ہمراہ وسطی غزہ کے ایک کھیت میں پھٹی پرانی خیمے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جہاں نہ بجلی ہے نہ پانی نہ علاج، اور نہ ہی کسی انسانی امداد کا سایہ۔
سلمیٰ کی ماں خیمے کے دروازے پر بیٹھی نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے حسرت سے کہتی ہے کہ”یہ جنگ ہماری بیٹی کا خواب چھین گئی۔ وہ اس وقت علاج کے پہلے مرحلے سے گزر کر بیرون ملک جانے کی تیاری میں تھی، لیکن اب ہم پھر زیرو پوائنٹ پر آ گئے ہیں، بلکہ شاید اب لوٹنے کا راستہ بھی نہیں رہا”۔
وہ بتاتی ہے کہ “سلمیٰ کی وہیل چیئر بھی تباہ ہو گئی جب قابض اسرائیل کے ایک فضائی حملے میں اس مکان کو نشانہ بنایا گیا جہاں وہ عارضی طور پر پناہ گزین ہوئے تھے۔ اب میں اسے گود میں اٹھا کر لاتی ہوں مگر مسلسل بھوک اور کمزوری نے مجھے بھی نڈھال کر دیا ہے”۔
سلمیٰ کے والد کا کہنا ہے کہ ان کا خواب تھا کہ سنہ2026ء میں سلمیٰ اپنے پیروں پر کھڑی ہو کر سکول کے پہلے دن کا آغاز کرے گی، مگر جنگ نے نہ صرف ان کی بیٹی کے حقِ علاج کو چھینا بلکہ ان کی امیدوں کو بھی دفن کر دیا۔
“میں ہر غیر ملکی میڈیکل ٹیم اور ہر ماہر ڈاکٹر سے ملا تاکہ سلمیٰ کے علاج میں پیش رفت ہو، مگر جب ہم بہتری کے قریب پہنچے تو جنگ نے سب کچھ ختم کر دیا۔”
ان کا کہنا ہےکہ “بحالی کے عمل کے رک جانے سے سلمیٰ کی حالت دوبارہ بگڑ گئی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اب ہم اسے پہلے والی حالت تک لا بھی پائیں گے یا نہیں۔ میں عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہوں کہ سلمیٰ اور تمام مریضوں کو علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دی جائے، کیونکہ آج غزہ ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔”
اعداد و شمار چیخ اٹھے
سلمیٰ اکیلی نہیں۔ قابض اسرائیل کی دو سالہ جنگ نے ہزاروں بچوں کو عمر بھر کے لیے معذور کر دیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، جنگ سے پہلے غزہ میں 58 ہزار معذور افراد تھے، مگر اب ان کی تعداد میں 60 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، یعنی تقریباً 35 ہزار نئے معذور افراد شامل ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی “کمیٹی برائے حقوقِ معذور افراد” کے مطابق، کم از کم 21 ہزار بچے قابض اسرائیل کی جنگ کے نتیجے میں جسمانی معذوری کا شکار ہو چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، دو برسوں کے دوران تقریباً 40 ہزار 500 بچے زخمی ہوئے جن میں سے نصف سے زیادہ مستقل معذوری میں مبتلا ہو گئے۔
“یونیسف” کے مطابق، صرف ابتدائی تین ماہ میں ایک ہزار سے زائد بچوں کے اعضا کاٹنے پڑے، یعنی روزانہ اوسطاً دس بچے اپنے ہاتھ یا پاؤں کھو بیٹھے۔
بین الاقوامی تنظیم “سیو دی چلڈرن” کے اندازوں کے مطابق، ہر مہینے 475 بچے ایسے زخموں کا شکار ہوئے جن سے وہ عمر بھر کے لیے اپاہج ہو گئے — کسی کا ہاتھ گیا، کسی کی بینائی اور کسی کا سماعت کا احساس۔
فلسطینی محکمہ شماریات کے مطابق، سنہ2023ء میں دو سے سترہ سال کے درمیان معذور بچوں کی تعداد 98 ہزار تھی، مگر حالیہ جارحیت کے بعد یہ تعداد خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ اب معذور بچے جنگ کے بعد ایک نئی جنگ لڑ رہے ہیں — بھوک، بیماری اور بے گھری کی جنگ۔
زندگی کی بنیادی ضرورتیں بھی نایاب
ماہرین کے مطابق، غزہ میں معذور افراد کی زندگی ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے۔ انہیں خوراک، وٹامنز، دوائیں، حتیٰ کہ پیشاب کی تھیلیاں اور وہیل چیئرز تک میسر نہیں۔ قابض اسرائیل کی جانب سے دانستہ طور پر قحط کو “سیاست” کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ غزہ کے عوام کو اجتماعی سزا دی جا سکے۔
صہیونی حملوں نے بحالی مراکز اور فزیوتھراپی یونٹس کو زمین بوس کر دیا ہے۔ اب ہزاروں معذور افراد اپنی روزمرہ زندگی کے بنیادی کاموں کے قابل بھی نہیں رہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں کی تباہی اور علاج معالجے کی کمی سے نہ صرف معذوروں کی حالت بگڑ رہی ہے بلکہ ان میں سے متعدد اپنی جانیں بھی گنوا رہے ہیں۔
سلمیٰ کی مانند ہزاروں فلسطینی بچے قابض اسرائیل کی وحشیانہ جنگ کے ایسے زندہ گواہ ہیں جن کے زخم بھرنے کے بجائے روز نئے ہو رہے ہیں، مگر ان کے چہروں پر اب بھی ایک سوال درج ہے — کیا دنیا کبھی ہماری آواز سنے گی؟