مقبوضہ بیت المقدس ۔ مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
مقبوضہ بیت المقدس میں واقع مسلمانوں کے قبلۂ اول مسجد اقصیٰ پر قابض اسرائیلی فوج اور صہیونی انتہاپسندوں کے منظم حملوں میں اکتوبر کے دوران بے مثال اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ مقبوضہ بیت المقدس گورنری کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ ماہ کل 10822 صہیونی آبادکاروں نے مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں زبردستی داخل ہو کر مقدس مقام کی بے حرمتی کی، جو ستمبر کے مقابلے میں 130 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان حملہ آوروں کے علاوہ 8704 صہیونی نام نہاد “سیاحتی اجازت ناموں” کے تحت مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے۔ یہ تمام اقدامات قابض اسرائیل کی ایک منظم پالیسی کا حصہ ہیں جس کا مقصد مسجد اقصیٰ اور اس کے اطراف پر اپنی غاصبانہ حکمرانی مسلط کرنا اور اسلامی شناخت کو مٹانا ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس گورنری کے تعلقات عامہ و اطلاعات کے سربراہ معروف الرفاعی نے کہا کہ یہ اعداد و شمار گذشتہ کئی برسوں میں سب سے زیادہ ہیں۔ ان کے مطابق صہیونی آبادکاری تنظیمیں روزانہ کی بنیاد پر یہ یلغاریں منظم کرتی ہیں تاکہ مسجد اقصیٰ پر عملی قبضہ مستحکم کیا جا سکے اور مسلمانوں کو نمازوں کے درمیانی اوقات میں وہاں قیام سے روکا جا سکے۔
انہوں نے بتایا کہ قابض اسرائیلی پولیس مسجد اقصیٰ کے دروازوں پر مستقل تعینات رہتی ہے اور مسلمانوں کو نماز کے اوقات کے علاوہ مسجد میں داخل ہونے سے روکتی ہے، تاکہ ایک نیا اور خطرناک حقیقت پسندانہ منظرنامہ مسلط کیا جا سکے جو مسجد میں اسلامی موجودگی کو کمزور کرے۔
الرفاعی نے کہا کہ ان بڑھتی ہوئی یلغاروں کا مقصد اسرائیلی اور بین الاقوامی رائے عامہ کے ذہنوں میں یہ تصور پیدا کرنا ہے کہ مسجد اقصیٰ یہودیوں کا مقدس مقام ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ سنہ2023ء کے سات اکتوبر کے بعد سے صہیونی آبادکار مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں کھلم کھلا تلمودی رسومات اور عبادات انجام دے رہے ہیں، گویا اسے ایک یہودی عبادت گاہ میں تبدیل کیا جا رہا ہو، خاص طور پر مسجد کے مشرقی حصے میں۔
الرفاعی کے مطابق اکتوبر کے دوران ان حملوں میں اضافہ دراصل یہودی مذہبی تہواروں سے منسلک ہے۔ ماہِ اکتوبر کے آغاز سے سترہ تاریخ تک صہیونیوں نے عبرانی سالِ نو اور عیدالعرش جیسے مذہبی تہواروں کے دوران مسجد اقصیٰ پر متواتر حملے کیے۔ یہ تہوار دراصل ستمبر کے وسط سے اکتوبر کے وسط تک جاری رہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان یلغاروں سے قبل صہیونی گروہ پرانے شہر کے محلوں میں بھی داخل ہوتے رہے جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
صہیونی آبادکار ان حملوں کے دوران مذہبی لباس زیب تن کرتے ہیں، تلمودی رسومات ادا کرتے ہیں، شوفار (بوق) بجاتے ہیں اور “سجودِ ملحمی” کے نام سے مخصوص رسم ادا کرتے ہیں جس میں وہ زمین پر لیٹ جاتے ہیں، خصوصاً باب الرحمہ کے قریب۔ مسجد کے مشرقی حصے میں واقع یہ علاقہ دو برس سے مسلمانوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے اور صہیونی تنظیموں کی خصوصی ہدف پر ہے، جہاں اسرائیلی پولیس اور خفیہ ادارے انہیں مکمل تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
الرفاعی نے بتایا کہ صہیونی آبادکار یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مبینہ “ہیكل” کے باقی ماندہ آثار باب الرحمہ کے آس پاس ہیں، اسی لیے وہ اس علاقے پر مکمل قبضے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ اسے اپنے مذہبی “مقدس مقام” کے طور پر تسلیم کرایا جا سکے۔
دستاویزی مزاحمت اور اردنی سرپرستی
مقبوضہ بیت المقدس گورنری کے سربراہ معروف الرفاعی نے کہا کہ اس بڑھتی ہوئی صہیونی درندگی کے مقابلے میں ان کے ادارے کے وسائل محدود ہیں۔ “ہم صرف ان واقعات کی دستاویزی رپورٹیں تیار کر کے فلسطینی قیادت تک پہنچاتے ہیں، جو بعد میں عالمی اداروں، امن معاہدوں کے ضامن ممالک اور اردن کی حکومت کو آگاہ کرتی ہے، جو القدس کے اسلامی و مسیحی مقدسات کی قانونی وصایت رکھتی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ “مقبوضہ بیت المقدس گورنری کے پاس نہ مالی وسائل ہیں نہ ميدانی قوت کہ وہ مسجد اقصیٰ کا تحفظ کر سکے، مگر اہلِ قدس اپنی ثابت قدمی اور صمود کے ذریعے اس مقدس مقام کے حقیقی محافظ بنے ہوئے ہیں۔”
الرفاعی کے مطابق گذشتہ پانچ برسوں میں بیت المقدس میں عرب آبادی کا تناسب 40 فیصد سے بڑھ کر 45 فیصد ہو چکا ہے، جو اہلِ قدس کے صبر و استقامت کا واضح ثبوت ہے۔ قابض اسرائیل کی نسل کشی، جبری بے دخلی، گھروں کی مسماری اور روزانہ کے مظالم کے باوجود فلسطینی اپنی سرزمین سے جڑے ہوئے ہیں اور دشمن کے تمام منصوبوں کو ناکام بنا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ “اہلِ قدس کو فوری اور حقیقی مدد کی ضرورت ہے، بالخصوص ان خاندانوں کو جن کے گھروں کے مسمار یا قبضے کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں”۔
فلسطینی اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر کے دوران قابض اسرائیلی حکام نے 55 نوٹس جاری کیے، جن میں 45 مکانات کی مسماری، 7 جبری خالی کرانے اور 3 زمینوں و جائیدادوں پر قبضے کے احکامات شامل ہیں۔ یہ کارروائیاں طور، سلوان، عناتا، جبع، قلندیا اور مشرقی القدس کے بدوی علاقے السعیدی میں کی گئیں۔ اس دوران قابض مشینری نے 15 مقامات پر مسماری اور زمین برابر کرنے کی کارروائیاں بھی کیں۔