غزہ۔ مرکز اطلاعات فلسطین فاونڈیشن
غزہ کی پٹی میں قابض اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کو دو برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، مگر آج بھی لاکھوں فلسطینیوں کے لیے خیمے ہی واحد پناہ گاہ بن چکے ہیں۔ چونکہ غزہ کی نوّے
فیصد سے زائد گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے، اس لیے یہ خیمے نہ صرف رہائش کا سہارا ہیں بلکہ ثابت قدمی، استقامت اور زمین سے وابستگی کی علامت بھی بن گئے ہیں۔
سات اکتوبر سنہ2023ء سے لے کر اکتوبر سنہ2025ء میں جنگ بندی کے معاہدے تک غزہ نے جدید تاریخ کی بدترین انسانی تباہی دیکھی۔ ہزاروں گھر صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے، لاکھوں انسانوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور بے شمار خاندان ملبے کے اوپر عارضی خیموں میں زندگی گزارنے لگے، تاکہ ویرانیوں میں بھی اپنی سانسوں اور یادوں کا تسلسل برقرار رکھ سکیں۔
ابو سعود… عزم و صبر کی علامت
خیموں اور ملبے کے بیچ محمود ابو سعود اپنے برباد گھر کے ملبے پر کھڑے ہیں۔ یہ خان یونس کے محلے حی الامل کے رہائشی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو پتھروں کے درمیان کھیلتے دیکھتے ہیں اور دھیمی آواز میں کہتے ہیں
“خیمہ سب کچھ نہیں چھپا سکتا، سردی چبھتی ہے، مگر سب سے کڑا لمحہ وہ ہوتا ہے جب اپنا گھر آنکھوں کے سامنے مٹی میں بدلتے دیکھو۔ ہر ہنسی، ہر کونا یاد آتا ہے”۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے گفتگو میں وہ کہتے ہیں کہ”بچے ہی ہمیں طاقت دیتے ہیں۔ ہر روز خود سے کہتا ہوں: صبر کرنا ہے، ڈٹے رہنا ہے، کیونکہ زندگی رک نہیں سکتی”۔
وہ اپنے گھر کے ٹوٹے ہوئے پتھر پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں “پتھر ٹوٹ گیا، مگر دل نہیں۔ جس نے ایک بار تعمیر کیا، وہ دوبارہ بھی کرے گا۔ ہم شکست نہیں سیکھتے، ہم دوبارہ اٹھنا سیکھتے ہیں”۔
ملبے کے درمیان الم ناک اعداد و شمار
غزہ کی زندگی ان برسوں میں ہر پیمانے پر المیہ بنی رہی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 92 فیصد گھروں یعنی تقریباً چار لاکھ چھتیس ہزار رہائشی یونٹ تباہ یا شدید متاثر ہو چکے ہیں، جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔
دو اعشاریہ ایک ملین سے زیادہ فلسطینی داخلی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں جو روز خیموں کے درمیان کسی محفوظ گوشے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
شہداء اور زخمیوں کی تعداد دل دہلا دینے والی ہے۔ رپورٹوں کے مطابق لگ بھگ انہتر ہزار فلسطینی شہید ہوئے جن میں بیس ہزار سے زائد بچے شامل ہیں، جب کہ ایک لاکھ ستر ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ اس دوران غزہ کی 78 فیصد سے زائد بنیادی تنصیبات اور عمارتیں تباہ ہوئیں، اور زراعت بھی مکمل طور پر برباد ہو گئی، جس نے زندگی کو مزید اجیرن بنا دیا۔
خیمہ چھوٹا ہے مگر امید بڑی ہے
خیموں کے جنگل میں فاطمہ حمدان اپنے تین بچوں کے ساتھ ایک چھوٹے خیمے میں بیٹھی ہیں جو ان کے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر نصب ہے۔
وہ پُرعزم لہجے میں کہتی ہیں “ہر صبح اٹھ کر گنتی ہوں کہ کون سی یادیں بچا سکی ہوں… کہیں ایک تصویر، کہیں ایک برتن۔ یہی میرا باقی ماندہ جہان ہے، اور میں اسے کبھی نہیں چھوڑوں گی”۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ”سردی ہو، طوفان ہو یا بھوک میں اپنے بچوں کے دل میں امید کا دیا روشن رکھتی ہوں۔ خیمہ چھوٹا ہے، مگر امید بہت بڑی ہے، ہم ہار نہیں مانیں گے”۔
غزہ کے ملبے پر زندگی تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔ بجلی ہے، نہ صاف پانی، اور اب موسمِ سرما کی سرد ہوائیں تکلیف کو مزید بڑھا رہی ہیں۔ اس کے باوجود، فلسطینی روزانہ اپنی ٹوٹی ہوئی دنیا کو جوڑنے کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔