مقبوضہ بیت المقدس، (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن)
کلب برائے اسیران کے دفتر اطلاعات نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کو حراست کے بعد منظم طریقے سے ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے۔ دفتر کے مطابق یہ انکشاف میڈیکل اور میدانی شواہد سے ہوا ہے، جن میں ان قیدیوں کی لاشیں بھی شامل ہیں جو حال ہی میں ان کے اہل خانہ کے حوالے کی گئیں۔ ان لاشوں پر تشدد، زنجیروں کے نشانات، جلنے کے آثار اور بعض پر گاڑیوں سے کچلے جانے کے شواہد پائے گئے، جو منظم جرائم کی عکاسی کرتے ہیں۔
دفتر اطلاعات برائے اسیران کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شہداء کی لاشوں کو طویل عرصے تک فریزر میں رکھنا یا انہیں نامعلوم “نمبروں کے قبرستانوں” میں دفن کرنا ایک دانستہ پالیسی ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کی تذلیل کرنا ہے، خواہ وہ زندہ ہوں یا شہید۔ بیان کے مطابق یہ اقدام بین الاقوامی انسانی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ قابض اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر کی جانب سے جاری ایک ویڈیو میں فلسطینی قیدیوں کو زمین پر زنجیروں میں جکڑا ہوا دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو میں بن گویر کہتا ہے: “ہم انہیں اسی طرح رکھتے ہیں، اب صرف ان کا خاتمہ باقی ہے۔” دفتر نے اس بیان کو کھلی اشتعال انگیزی اور صہیونی نظام کی مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی قرار دیا۔
دفتر نے عبرانی ٹی وی چینل “کان” کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اسرائیلی وزارت انصاف اور سیاسی قیادت کے درمیان ایسے سمجھوتے طے پائے ہیں جن کے تحت سیکڑوں فلسطینی اسیران کو “نخبة یونٹ کے جنگجو” قرار دے کر سخت اور غیر انسانی حالات میں رکھا جا رہا ہے، جو دراصل جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ قابض حکومت نے سات اکتوبر 2023ء کے بعد نافذ کردہ ایمرجنسی کی آڑ میں گرفتاریوں کی مہم میں خطرناک اضافہ کیا اور ہزاروں افراد کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے انتظامی حراست میں ڈال دیا۔ اسی دوران اسرائیلی حکومت نے قیدیوں کے سزائے موت کے قانون کی حمایت بھی بڑھا دی، جو دراصل فلسطینیوں کے خلاف اجتماعی سزاؤں اور عدالتی قتل عام کی تیاری ہے۔
کلب برائے اسیران کے دفتر اطلاعات نے واضح کیا کہ یہ تمام شواہد اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہیں کہ قابض اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو منظم منصوبے کے تحت نشانہ بنا رہا ہے۔ دفتر نے اقوام متحدہ اور عالمی اداروں سے اپیل کی کہ وہ ایک آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیں جو ان جرائم میں ملوث صہیونی رہنماؤں کو عدالت کے کٹہرے میں لائے۔
دفتر نے مزید کہا کہ قابض اسرائیل امریکہ اور یورپی حمایت کے سائے میں سات اکتوبر 2023ء سے غزہ کی پٹی میں کھلی نسل کشی میں مصروف ہے، جس میں قتل عام، بھوک، تباہی، جبری نقل مکانی اور گرفتاریوں کی مہمات شامل ہیں۔ اس دوران قابض ریاست نے عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ کی بار بار کی گئی اپیلوں کو بھی یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔
اس وحشیانہ نسل کشی کے نتیجے میں اب تک دو لاکھ انتالیس ہزار سے زائد فلسطینی یا تو شہید ہو چکے ہیں یا زخمی، جن میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین شامل ہیں۔ گیارہ ہزار سے زیادہ افراد لاپتا ہیں جبکہ لاکھوں بے گھر فلسطینی قحط اور بیماریوں سے دوچار ہیں جن میں کئی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ قابض اسرائیلی بمباری سے غزہ کی بیشتر بستیاں اور شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔
ادھر غرب اردن میں بھی اسرائیلی فوج اور صہیونی آبادکاروں کے جاری حملوں کے نتیجے میں ایک ہزار باسٹھ فلسطینی شہید ہوئے، تقریباً دس ہزار زخمی ہوئے اور بیس ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں سولہ سو بچے شامل ہیں۔