مقبوضہ بیت المقدس ۔(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قابض اسرائیلی حکام نے بدھ کی شب جنوبی القدس میں واقع صہیونی کالونی “گوش عتصیون” میں 1300 نئے غیرقانونی رہائشی یونٹس تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی باضابطہ منظوری دے دی۔
قابض اسرائیل کے چینل 14 کے مطابق یہ نئے یونٹس “الجبل الروسی” نامی علاقے میں تعمیر کیے جائیں گے جو “ألون شفوت” یہودی کالونی کے جنوبی حصے میں واقع ہے۔ منصوبے میں رہائشی یونٹس کے ساتھ سکول، عوامی عمارتیں، پارک اور ایک بڑی تجارتی منڈی بھی شامل ہے جو اطراف کی دیگر صہیونی بستیوں کو سہولت فراہم کرے گی۔ اس منصوبے کو اس علاقے کی تاریخ کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب القدس کی گورنری نے بتایا کہ قابض اسرائیلی حکام نے العیساویہ اور مشرقی القدس کے علاقے بلدہ الزعیم میں فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے اور تعمیرات روکنے کے 30 نوٹس جاری کیے ہیں۔
یہ جارحانہ کارروائیاں ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب مقبوضہ مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں صہیونی آبادکاروں کے حملوں میں بھی شدت آگئی ہے۔ نامہ نگاروں کے مطابق آبادکاروں نے شمالی رام اللہ کی بلدہ دیر نظام میں فلسطینی شہریوں کی گاڑیوں پر حملہ کیا جبکہ دیگر گروہوں نے ترمسعيا چوٹیوں کے زرعی علاقے میں آگ لگا دی جہاں درجنوں قدیم زیتون کے درخت موجود تھے۔
اس سے قبل رواں ماہ اکتوبر میں قابض اسرائیلی کنیسٹ نے ابتدائی مرحلے میں ایسے قانون کی منظوری دی تھی جس کا مقصد مغربی کنارے اور صہیونی بستی “معالیہ ادومیم” پر مکمل اسرائیلی خودمختاری نافذ کرنا ہے۔ یہ انکشاف قابض اسرائیل کے چینل 12 نے کیا۔
یہ ووٹنگ کنیسٹ کے عمومی اجلاس میں اس وقت ہوئی جب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو نے بین الاقوامی حلقوں کے انتباہات کے پیش نظر اس اقدام کو مؤخر کرنے کی کوشش کی، تاہم قانون کو ابتدائی مرحلے میں ہی اکثریتی حمایت حاصل ہو گئی۔
یہ متنازعہ قانون دائیں بازو کے انتہا پسند “نوعام پارٹی” کے سربراہ آوی ماعوز نے پیش کیا تھا، جس نے بنجمن نیتن یاھو کی جانب سے قانون کے التوا کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اسے فوری طور پر ایوان میں پیش کر دیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ رواں سال جولائی میں بھی کنیسٹ کے عمومی اجلاس نے مغربی کنارے پر صہیونی خودمختاری نافذ کرنے سے متعلق ایک علامتی قرارداد کو 71 ارکان کی اکثریت سے منظور کیا تھا، اگرچہ اس کا کوئی عملی اثر نہیں ہوا۔
یہ تمام اقدامات قابض اسرائیل کے اس خطرناک منصوبے کا حصہ ہیں جو “گریٹر اسرائیل” کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے لیے فلسطینی سرزمین پر قبضے کو مضبوط کر رہا ہے، جبکہ عالمی برادری کی خاموشی اس نسل کشی کو مزید تقویت دے رہی ہے۔
