Uncategorized
بات چل نکلی ہے دیکھیں کہاں تک پہنچے…..
میں استنبول کے تقسیم چوک میں خودی اور غیرت کے مفہوم سے پوری طرح آشنا اس ترک قوم کے مظاہروں میں شریک ہوں جوواقعی غیرت مند،خوددار اور ایک قوم ہونے کا بھرپور ثبوت پیش کررہی ہے۔ جس لمحے یہ خبر آئی کہ قافلہ حریت پر اسرائیل نے وحشیانہ حملہ کرکے کچھ لوگوں کو شہید کیا ہے جس میں زیادہ تر افراد ترکی کی حقوق انسانی کی تنظیم IHH کے رضاکار تھے، اسی وقت سے پوری ترک قوم بڑی تعدا د میں گھروں سے نکل کر مظاہروں میں شریک ہوگئی۔ اپنی زندگی کا ثبوت دیتی ہوئی اس قوم کو میں بہت رشک سے دیکھ رہی ہوں جو اپنے ہم وطنوں کی شہادت پر اس طاقت کو للکا ررہی ہے جو آج پوری دنیا میں فساد کا ذمہ دار ہے۔
ان مظاہروں میں ترک نوجوان نسل کے بدلے ہوئے مزاج کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے جو اپنے صدمے کو قوت میں تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کررہی ہے۔
خلافت عثمانیہ کا مرکز ترکی اسلام کی عظمت رفتہ کی یاد وں کو تازہ کرتے ہوئے اسلام کی نشاة ثانیہ کی علامت بن کر اُبھر رہاہے۔ میں اپنے آغا جان کے ساتھ 1996ء میں ترکی کو اسلام دشمن طاقتوں کے چنگل سے چھڑا کر اسلام کا قلعہ بنانے کی تگ و دوکرنے والے عظیم لیڈر اُستاد نجم الدین اربکان اور اس وقت کے استنبول کے میئر اور آج کے وزیراعظم طیب رجب اُردغان کی دعوت پر پہلی دفعہ بوسنیا کے لیے منعقد کی گئی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے آئی تھی جس کے مہمان خصوصی کے طور پر آغاجان کو دعوت دی گئی تھی۔ اُس وقت سے لے کر آج تک ترکی کے منظر نامے میں ایک واضع تبدیلی نظر آر ہی ہے ۔ اس دفعہ ہر جگہ اور ہر وقت مختلف الخیال لوگوں اور اجتماعات میں مجھے یہ محسوس ہوا کہ اس نسل میں اپنی عظمت رفتہ کو بازیاب کرانے کاعزم پہلے سے کہیں زیادہ توانا ہو رہاہے۔ جو کچھ کانفرنس میں (جوکہ ترکی کے ایک دانش کدہ ESAMکی طرف سے منعقدکی گئی اور اس کا تفصیلی ذکر میں بعد میں کروں گی۔)نہ دیکھ سکی کہ وہ ایک سنجیدہ اور دانش کی محفل تھی مگر اسرائیل کے ظالمانہ حملے کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں ترک اپنے عزائم کا پوری طرح اظہار کررہے ہیں۔ اس حملے کے وقت طیب اردگان اور چیف آف آرمی سٹاف دونوں ملک سے باہر تھے جو فوراً اپنے دورے منسوخ کرکے وطن واپس پہنچے۔ چیف آف آرمی سٹاف اپنے صلاح مشورے میں مصروف ہوگئے اور اعلان کیا کہ ہمیں جو بھی حکم ملے گا ہم اپنی سرحدوں اور اپنے عوام کی حفاظت کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور وزیراعظم نے اپنی آمد سے پہلے ہی اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے آتے ساتھ ہی اسمبلی میں خطاب کیا اور میں اُن کی تقریر کا ترجمہ اپنی ترک سہیلی کی زبانی سن کر ان کے جذبہ حمیت پر خوش بھی ہو رہی تھی اور شک بھی کررہی تھی کہ ہمارے ہاں آئے دن ڈرون حملوں میں ہمارے ہم وطنوں کے چیتھڑے اڑ رہے ہیں مگر حکمران فوج اور عوام بے حمیتی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ایسے موت کی سی بے حسی کا شکار ہیں کہ جیسے مردہ لاش کو کوئی کتنا ہی بھنوڑ ڈالے اسے کوئی احساس نہیں ہوتا۔
مجھے اس وقت مزید حیرت ہوئی جب میں نے شہداء کی تعداد پوچھی کیونکہ ہرجگہ شہداء کا تذکرہ ہے۔ اُن کی میتیں وصول کرنے کے لیے پورا ترکی تیاریاں کررہاہے ۔ اخبارات ، ٹیلی ویژن ،اسی ایک ہی خبر سے بھرے پڑے ہیں اور میں سمجھ رہی تھی کہ شہداء کی تعداد بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے اتنا سخت غم وغصہ کا اظہار ہے مگر جب مجھے بتایا گیا کہ 8سے 19افراد کی تعداد بتائی جا رہی ہے تو میں واقعی جذبہ حریت سے سرشار اس قوم کو سلام کرنے پر مجبور ہوئی کہ اپنے ایک ایک فرد کو قیمتی سمجھنے والی قوم ہی ترقی کی بلندیوں پر پہنچنے کا حق رکھتی ہے ۔
طیب اردگان شیر کی طرح اسرائیل کو للکار رہے تھے کہ ہمارے صبر کو مزید نہ آزمایا جائے او رہم نے ہمیشہ بقائے باہمی کے تحت مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا مگر اب فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کا وقت آگیاہے اور غزہ کا محاصرہ فوری طورپر ختم کیا جائے۔ پوری دنیا میں فلسطین کے لئے صرف نشتند ،گفتند اور برخواستند کی مانند بات ہو رہی ہے ،مگر ہم نے ابتداء سے ہی عملی کام کیا ہے اور آج اپنے شہداء کا نذرانہ پیش کیا ہے ۔ ترکی کے وزیرخارجہ کمال الدین اوغلو بہت باوقار انداز میں پریس کانفرنس کررہے تھے اور صحافیوں کو دیتے ہوئے ان کے جوابات میں ترک قوم کی غیرت وحمیت کا بھرپور طور پر اظہار ہو رہاتھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اسرائیل ہمارے صبر کو مزید نہ آزمائے اور اسے ایک انسانی ہمدردی کے لئے جاتے ہوئے قافلے پر حملے کے لئے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ان کے ایک سفارتکار نے کہاکہ اسرائیل کا واسطہ ابھی تک نہتے فلسطینیوں اور نکمی عرب حکومتوں سے پڑا ہے اس نے اب پہلی دفعہ ایک ایسی قوم سے ٹکرلی جو غیرت مند اور اپنی حفاظت کرنا جانتی ہے ۔
ترک میڈیا اپنی قوم کے جذبات کا پوری طرح ابلاغ کررہاہے ۔ ابھی اس وقت میں حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار کے ساتھ ہی ساحل سمندر پر بیٹھ کر یہ منظر قلم بند کررہی ہوں کہ ایک طرف سمندر کی موجوں کا تلاطم نظر آ رہاہے اور دوسری طرف میرے ساتھ نوجوان ترک بچیوں کا ایک گروہ ہے جو فلسطین کے پرچم اٹھائے ہوئے،فلسطین کے رومالوں کو سکارف بنا کر پرجوش انداز میں ائیرپورٹ جانے کی تیاریاں کررہی ہیں جہاں کچھ دیر بعد تل ابیب سے آنے والے جہاز میں ترک رضاکار رہا ہو کر واپس آ رہے ہیں۔ ان بچیوں کا والہانہ انداز میں استقبال کی تیاریاں دیکھ کر اور ان کے گلوں میں ڈالے رومالوں پر”القدس لنا“القدس ہمارا ہے اور ”نحن قادمون “ کہ ”ہم آ رہے ہیں “ کے نعرے دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو محسوس کررہی تھی کہ اُس نے مجھے اپنے آغاجان کی وجہ سے ایسے وقت میں استنبول میں پہنچایا کہ ساری دنیا کی نظر یں اسی جگہ پر لگی ہوئی ہیں او رمیں براہ راست ترک قوم کے جذبات کامشاہدہ کررہی ہوں جو ہمیں بھی بے پناہ قوت کا احساس دلا رہے ہیں کہ ہم ایک اُمت ہیں۔ اسرائیل کے اس وحشیانہ اقدام نے اس کا مکروہ قاتل چہرہ ساری دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ہے ۔
اسرائیلی فوج کی ترجمان بڑی زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ ہمیں اسرائیل کی حفاظت کے لئے ہر طرح کا اقدام کرنے کا اختیار ہے اور غزہ کا محاصرہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ اُس نے ہمارے دشمن حماس کوانتخابات میں ووٹ دیئے ہیں جو ہمارے لیے قطعاً قابل قبول نہیں ہے۔ اس کے بعد ان کے ایک وزیر مشعل بارک نے بھی اسی طرح کی ڈھٹائی کا انداز اختیار کیا اور کہاکہ یہ امدادی سامان کا قافلہ نہیں بلکہ اسرائیل کو خبر دار اور خوفزدہ کرنے کا قافلہ تھا اور ہم ان پر حملہ کرنے میں پوری طرح حق بجانب ہیں ۔ ان کی باتوں کو دیکھتے ہوئے ایسے لگ رہاتھا کہ انہیں اپنے خدا ہونے کا احساس فرعون سے ورثہ میں ملاہے۔ اُس نے بھی” اَنَارَبُّکُمُ الْاَعْلٰی“کا نعرہ لگایاتھا۔اور قدرت نے اُسے سمندر کی تاریکیوں میں دفن کرکے اُسے زمانے کے لیے عبرت کا نشان بنا کر محفوظ کردیا۔ آج اسرائیل کے خلاف بھی Free Ghaza Compaignکے انچارج کہہ رہے تھے کہ فلسطینیوں کی بے مثال قربانیوں کے بعد غزہ کے حصار کے ٹوٹنے کا وقت ان شاء اللہ قریب آپہنچاہے۔ حکومتوں نے پہلی دفعہ اس معاملے میں بات کرنی شروع کی ہے اور عوا م میں یہ شعور بیدار ہو رہاہے کہ ایک ناجائز طور پر قائم ہونے والی ریاست نے انسانوں کی سب سے بڑی جیل بنا کر انسانوں کو غلام بنانے کا مکروہ کھیل شروع کررکھا ہے۔
پاکستانی صحافی طلعت حسین کی قافلہ حریت میں شرکت سے مجھے وہاں پر سب کے درمیان بات کرتے ہوئے حوصلہ ملتاتھاکہ اس قافلہ ء حریت میں میرے ہم وطن بھی شریک ہیں۔ اُن کے انٹرویوز تر ک میڈیا بار بار دکھاتا رہا۔ قافلے میں شریک ایک 83سالہ عرب بزرگ کے حوصلے حملے کے بعد اور جوان ہوگئے تھے اور وہ اُردن کے شاہ حسین پل پر جذباتی انداز میں نعرہ تکبیر لگاتے رہے۔ ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ کا اب کیا ارادہ ہے ؟اُنہوں نے جواب دیا کہ میں بار بار آتا رہوں گا یہاں تک کہ غزہ آزاد ہوجائے ۔ تل ابیب سے واپس آنے والے ترک رضا کاروں کے لئے استنبول کے باشندے جوق درجوق باہر نکل رہے ہیں۔ عشاء کی نماز کے بعد تقسیم چوک میں انسانوں کا ایک ہجوم تھا جو اپنے جذبات کا اظہار کبھی نعروں ، کبھی تقریروں اور کبھی ترانوں کی صورت میں کررہاتھا۔ فلسطین کے جھنڈے ماتھے پر کلمہ کی پٹیاں اور قومی پرچم اٹھائے مرد ،عورتیں ،بچے سب جمع ہو رہے تھے ۔ رات 12بجے تک یہاں اپنے جذبات کے اظہار کے بعد یہ انسانوں کا ہجوم ائیرپورٹ کی طرف رواں دواں تھا۔ ائیرپورٹ پہنچے تو ایسے لگا کہ ائیرپورٹ کے وسیع و عریض میدان کی وسعتیں تنگ پڑ رہی ہیں مجھے ایسے لگ رہاتھا کہ شب کی آخری ساعتیں جب یا تو وہ ہستی جا گ رہی ہوتی ہے جسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ یا وہ لوگ جن کے نصیب جا گ رہے ہوتے ہیں۔ اپنے رب سے سب کچھ مانگنے کے لیے کہ وہ اُس وقت خود عطا کے لیے اپنے بندوں کو پکار رہا ہوتا ہے ۔ مجھے استنبول کے ائیرپورٹ پر فجر کے طلوع ہوتے وقت ایسے ہی محسوس ہو رہاہے کہ جیسے اس قوم کے نصیب بھی جا گ رہے ہیں کہ اس وقت انسانوں کا ایک سمندر ہے اور فلک شگاف نعروں کی گونج جس میں ترک قوم کا روشن مستقبل واضع طور پر نظر آ رہاہے۔ اتنی بڑے تعداد میں فلسطین کے پرچم نظر آ رہے ہیں کہ لگ رہا ہے کہ یہ استنبول نہیں فلسطین ہے ۔ لڑکیوں نے فلسطین کے رومال کو گلوں میں لپیٹا ہے تو لڑکیوں نے اُسے سکارف بنایا ہوا ہے ۔ ماتھے پر کلمہ کی پٹیاں سجائے ایسے روح کو گر مادینے والے نعرے کہ مردہ روحوں کو زندگی بخش دے۔ میں نے اس دفعہ ایک واضع تبدیلی دیکھی کہ ترکی میں خلافت کے خاتمے کے بعد اسلام کی ہرعلامت پر پابندی لگادی گئی تھی مگر یہ نسل اب کسی کے روکے نہیں رکنے والی ان شاء اللہ ایک نعرہ اتنا زیادہ بلند آہنگ کے ساتھ لگ رہاہے اور اتنا یک آ واز ہوکر پوری قوم لگا رہی ہے کہ مجھے بھی یاد ہو گیا ہے ”یاشن،کرسیال ، انتفاضہ “میں نے اپنی ترک دوست سے پوچھا کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو ۔ اُس نے جواب دیا کہ صرف فلسطین نہیں بلکہ عالم بیدار ہو رہا ہے۔ اسرائیل نے اس قافلہ حریت پر حملہ کر کے پوری دنیا میں گلوبل انتفاضہ کی بنیاد رکھ دی ہے۔ ہم اسی عالمی بیداری کو زندہ باد کہہ رہے ہیں ۔ میں نے اُسے جواب دیا کہ میرے قومی شاعرنے پچھلی صدی میں ہی اپنے چشم بینا سے اُسے دیکھ کر کہاتھاکہ
جہاں نو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر ہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنادیاتھا قمار خانہ
ترک قوم کی تنظیمی صلاحیت کو دیکھ کر اُن پر رشک آتا ہے۔ بہت بڑی بس کے اُوپر جنگلے لگا کر بہت بڑا مائیک سسٹم لگا دیا گیا ہے اور یہی بس اسٹیج بھی ہے اور اسی بس نے تل ابیب سے آنے والے مسافروں کو لے کر جا نا بھی ہے۔
اس سارے واقعے کے ردعمل میں ترک قوم نے جس اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا وہ لائق تحسین ہے ۔ ہم میں سے کسی کو پتہ نہیں چل رہا کہ کون کس پارٹی سے تعلق رکھتاہے ؟ وہ بس سب ترک جو اپنے 8شہداء کے لئے ایسے نکل پڑے ہیں کہ مجھے رشک آ رہا ہے۔ نائب وزیراعظم بلند ایرج جب بس کی چھت پر پہنچے تو انسانوں کے سمندر نے پرجوش نعروں سے اُن کا استقبال کیا کہ ”قاتل اسرائیل فلسطین سے نکل جاؤ “ ”حماس تمہیں سلام “نعرہ تکبیر اور کلمہ کا ورد رات کی ان آخری گھڑیوں میں عجب روحانی قوت سے سرشار کر رہا ہے ۔
بلند یلدرم جو ترکی کی انسانی حقوق کی تنظیم ”انسان حق حریت “ ”IHH“کے سربراہ ہیں اور سعادت پارٹی اور اسی تنظیم کے رضا کار ہی شہداء میں شامل ہیں، جب نمود ار ہوئے توضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور بپھرے ہوئے نوجوانوں کو اپنے جذبات پر قابو نہ رہا۔ وہ ”یا اقصیٰ نحن قادمون “ کہ اے اقصیٰ ہم آ رہے ہیں کے بینروں تلے شیروں کی طرح لگ رہے ہیں ۔ بلند یلدرم نے سب قوموں کاتذکرہ کیا جو ان کے ساتھ اس قافلے میں شریک تھے۔ اُس وقت نہ جانے کیوں مجھے شرمساری کا احساس ہوا کہ اس اتنے بڑے قافلے میں ہمارے ایک دو افراد ہی نے فرض کفایہ ادا کیا ۔ کیا ہماری قوم کو اس کی خبر نہ تھی یا ہم پر اتنی بے حسی طاری ہوچکی ہے کہ ہم مردہ لاش بن گئے ہیں اور کوئی واقعہ ہمیں خوابِ غفلت سے جگا نہیں سکتا۔ بس کی چھت پر تمام قوموں کے نمائندہ افراد جمع ہیں مگر میں اپنی قوم کو ڈھونڈتی رہی جس کا یہاں پر برائے نام ذکر ہے ۔ وہ جہاز پر حملے کے سارے چشم دید واقعات اور اُن کے ساتھ آئے ہوئے لوگوں کا تعارف کررہے ہیں اور سب یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ
بات چل نکلی ہے دیکھیں کہاں تک پہنچے
میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک ترک خاتون کے گھر آئی ، اُس کا پورا گھرانہ فلسطین کے جھنڈوں سے سجا ہوا مظاہروں میں جانے کے لئے تیار بیٹھاتھا۔ موٹر سائیکل پر گاڑی پر جھنڈے ،ماتھے پر پٹی اور شانوں پر فلسطینی رومال ڈالے ہوئے ایک اُمت ہونے کا منظر عجیب سرشاری کا احساس دے رہاتھا۔
آغاجان نے بھی دو دن مختلف مظاہروں سے خطاب کیااورپاکستانی قوم کی نمائندگی کا احساس دلایا مجھے لگاکہ اسلام دشمن قوتوں نے ہمیں مختلف قوموں اور نسلوں اور قبیلوں میں بانٹنے کی بھرپور کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے اُسے ناکام بنا دیا اور جب بھی کوئی اس طرح کا واقعہ پیش آتا ہے تو وہ لوگ جو ہمیں طعنہ دیتے تھے کہ کہاں ہے وہ اُمت؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے ہی اوقات میں ان کا جواب دینے کیلئے یہ واقعات رونما ہوتے ہیں۔ میزبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری اور میناروں کے شہر استنبول میں رات کے وقت مسجدوں کے روشن مینار اُمت مسلمہ کی عظمت رفتہ کا شان بنے سحر کی نوید سنا رہے ہیں کہ !
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا