سفارت نامہ…ریاض احمد سید یہودیوں کی عیاری اور مکاری کے بے شمار قصے زبان زد عام ہیں ۔روس اور ترکی کی جنگ کے زمانے میں ایک یہودی نوجوان محاذ پر روانہ ہونے لگا تو ماں نے نصیحت کی ”بیٹا ! زیادہ مشقت کی ضرورت نہیں۔ آرام اور صحت کا خیال رکھنا۔ بس ایک ترک مار لیا اور آرام کر لیا، پھر ایک ترک مارا اور آرام کر لیا“۔ لڑکا بولا ، مگر ماں!اگر ترک نے مجھے مار دیا تو ؟ وہ بھلا ایسا کیوں کرنے لگا ”تم نے اس کا کیا بگاڑا ہے؟ ماں نے معصومیت سے جواب دیا۔ راقم نے یہ لطیفہ پڑھا تو اسرائیلی وزیر اعظم 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران کیا گیا واویلا یاد آ گیا۔ موصوف نے تعجب کے ساتھ کہا تھا”ان عربوں کو کیا ہو گیا ہے، وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ ان سے ہمارا وجود برداشت کیوں نہیں ہو پا رہا ؟“ تجاہل عارفانہ کا یہ اسرائیل طرز عمل آج بھی ویسا ہی ہے۔ چھ عشروں سے فلسطینیوں پر مسلسل ڈھائے جانے والے مظالم کو وہ اپنا حق اور روزمرہ کی چیز ہی نہیں سمجھتا بلکہ اپنے مربیان سے ستائش کی توقع بھی رکھتا ہے۔ جنہوں نے واقعی اسے کبھی مایوس بھی نہیں کیا۔ فلوٹیلا کا سانحہ بھی تل ابیب کی اسی حکمت عملی کا مظہر اور تسلسل تھا۔ مختلف خطوں اور قومیتوں کے ساتھ سو کے لگ بھگ رضا کار چھ چھوٹے جہازوں میں سوار دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل غزہ کی مفلوک الحال قیدیوں کی دستگیری کیلئے جا رہے تھے۔ عالمی دہشت گرد اسرائیل کو ان کی یہ گستاخی پسند نہ آئی اور کھلے سمندر میں نہتے رضا کاروں کو گولیوں سے بھون ڈالا ۔ جس پر پوری دنیا نے غم و غصہ کا اظہار کیا مگر بزعم خود دنیا بھر میں دہشت کے خلاف جنگ میں مصروف امریکہ کو گویا سانپ سونگھ گیا۔ یوں لگا کہ واشنگٹن کو اس کھلی جارحیت اور بدترین دہشت گردی کی خبر ہی نہیں ہوئی۔ ناز برداری کی انتہا ملاحظہ ہو کہ صدر او بامہ نے اس سانحہ کی منفت سے صاف انکار کر دیا اور صرف اتنا کہنے کی ہمت کی کہ اس قسم کے واقعات نامناسب و نازیبا ہیں۔ اس لئے ضروری بیان پر بھی سراپا احتجاج بن گیا اور صدر اوبامہ کی اسرائیل دشمنی پر خوب حاشیہ آرائی ہوئی۔ امریکی صدر کے اس بیان پر اسرائیلی ناراضی بلاوجہ نہیں۔ امریکہ نے اسے سر پہ ہی اتنا چڑھا لیا ہے کہ وہ اس سے صرف ستائش کے علاوہ اور کچھ سن ہی نہیں سکتا۔ 2006ء کی گرمیوں میں اسرائیل نے لبنان پر وحشیانہ بمباری کی تھی تو ایوان نمائندگان نے بھاری اکثریت سے تل ابیب کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔410کے مقابلے میں محض 8ووٹ مخالفت میں پڑے تھے۔ امریکہ کے اس طرز عمل پر سوالیہ نشان لگتے آئے ہیں اور اس دلداری کی وجہ بھی ایک کھلا راز ہے۔ بیشک اس کے پیچھے اسرائیل لابی کی بے پناہ طاقت اور اثر و رسوخ پوشیدہ ہے۔ امریکی معیشت، معاشرے اور سیاست کو مٹھی بھر یہودیوں نے کچھ اس طور مٹھی میں لے رکھا ہے کہ وائٹ ہاؤس تک بے بس دکھائی دیتا ہے۔ امریکن، اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی ملکی معاملات میں حددرجہ اثر و رسوخ کی حامل ہے اور خود امریکیوں کا یہ کہنا ہے کہ ”یہ کمیٹی لابنگ کی حدود سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ وہ بلیک میلنگ کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی ،گاہے بگاہے یہ ہتھیار کامیابی کے ساتھ استعمال بھی کرتی رہتی ہے “ جس کا امریکہ کے سیاسی حلقوں میں نوٹس لیا جانے لگا ہے اور اسرائیل کی خود سری کے حوالے سے ڈیموکریٹس کے تحفظات بڑھتے جا رہے ہیں۔ مگر وائٹ ہاؤس کی سوچ میں ہنوز کسی قسم کی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔ جہاں اسرائیل کی خوشنودی کا مکمل خیال رکھا جا رہا ہے بلکہ شاہ سے بڑھ کر شاہ پرستی کا اہتمام ہے۔ وائٹ ہاؤس کی دیرینہ کارسپانڈنٹ 89سالہ ہیلن تھامس کو چند روز پیشتر (7جون)کو محض اس جرم میں نوکری سے برخاست کر دیا گیا کہ اس نے ایک اخباری مضمون میں بیلیہ کو بیلچہ کہہ دیا تھا “ یعنی لگی لپٹی رکھے بغیر اسرائیل کو آئینہ دکھا دیا تھا۔ موصوفہ نے لکھا“ وقت آ گیا ہے کہ فلسطینیوں پر ڈھائی گئی قیامت کا خاتمہ ہو اور غاصب یہودی ان کے علاقے کو خالی کر کے جرمنی، پولینڈ، امریکہ یا جہاں بھی سینگ سمائے چلے جائیں۔ مس تھامس کا فراغت نامہ جاری کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری رابرٹ گبس نے کہا کہ ”بی بی کے خیالات ان کے ذاتی ہیں اور امریکی عوام اور حکومت کی ترجمانی نہیں کرتے اور انہیں افسوسناک ہی کہا جا سکتا ہے“۔ راقم کو مس تھامسن کے ساتھ اس ناروا سلوک پر یوں بھی دکھ ہے کہ1998ء میں واشنگٹن کی ایک تقریب میں ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا تھا اور ان کے علم ،تدبر، اور تجزیہ سے بے حد متاثر ہوا تھا۔