قاہرہ ۔(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) قاہرہ میں جمعرات کے روز اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور تحریک فتح کے اعلیٰ سطحی وفود کے درمیان اہم ملاقات ہوئی جس میں موجودہ فلسطینی صورتِ حال اور غزہ میں فائر بندی کے معاہدے کے دوسرے مرحلے سے متعلق امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
فلسطینی ذرائع کے مطابق قاہرہ میں ہونے والے اس اجلاس میں غزہ میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے حماس وفد کی قیادت کی جبکہ فتح کی جانب سے یہ وفد فلسطینی اتھارٹی کے نائب صدر حسین الشیخ کی قیادت میں شریک ہوا۔
اجلاس میں دونوں جماعتوں نے اتفاق کیا کہ باہمی رابطوں اور مشاورت کا سلسلہ آئندہ مرحلے میں بھی جاری رکھا جائے گا تاکہ قابض اسرائیل کی پالیسیوں سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کے مقابلے کے لیے فلسطینی صفوں کو منظم اور متحد کیا جا سکے۔
تحریک فتح کے وفد میں حسین الشیخ کے ساتھ فلسطینی خفیہ ادارے کے سربراہ ماجد فرج بھی شامل تھے جبکہ حماس وفد میں خلیل الحیہ کے ہمراہ سیاسی دفتر کے ارکان زاہر جبارین، حسام بدران اور عزت الرشق شریک تھے۔
حماس کے بیرونِ ملک شعبہ برائے قومی تعلقات کے سربراہ علی برکہ نے بتایا کہ حماس وفد نے قاہرہ میں مختلف فلسطینی دھڑوں کے ساتھ اہم مشاورتی ملاقاتیں کیں جن میں فائر بندی کے دوسرے مرحلے، غزہ کے انتظام کے لیے ایک غیر جانب دار انتظامی کمیٹی کی تشکیل اور مجموعی سیاسی پیش رفت پر گفتگو کی گئی۔
علی برکہ نے واضح کیا کہ حماس کی قیادت نے تمام فریقوں پر یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ غزہ فلسطین کا لازمی حصہ ہے اور کسی صورت اسے فلسطین سے الگ یا علیحدہ اکائی کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔
گذشتہ روز بدھ کے دن مصر کی دعوت پر مختلف فلسطینی جماعتوں کے مابین مزید ملاقاتیں بھی ہوئیں جن میں آئندہ متوقع قومی اجلاس کی تیاریوں پر بات چیت کی گئی۔ اس اجلاس میں غزہ کے نظم و نسق کے حوالے سے ایک جامع قومی فیصلہ متوقع ہے۔
واضح رہے کہ غزہ میں فائر بندی کا معاہدہ رواں ماہ 10 اکتوبر کو نافذ ہوا، جو دو برس طویل تباہ کن جنگ کے بعد طے پایا۔ اس جنگ میں قابض اسرائیلی درندگی کے نتیجے میں دسیوں ہزار فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے۔ یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے براہِ راست دباؤ پر طے پایا جس میں بیس نکاتی نام نہاد ’’غزہ امن منصوبہ‘‘ شامل تھا۔
ذرائع کے مطابق اس منصوبے کے تحت ایک غیر سیاسی تکنیکی فلسطینی کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے جو غزہ کے عوامی و بلدیاتی امور چلائے گی۔ اس کمیٹی میں فلسطینی ماہرین اور بین الاقوامی شخصیات شامل ہوں گی اور یہ ایک نئے بین الاقوامی ادارے ’’کونسل برائے امن‘‘ کی نگرانی میں کام کرے گی جس کی صدارت خود ٹرمپ کے پاس ہوگی۔
منصوبے کے مطابق دونوں جانب سے فائر بندی، قیدیوں کے تبادلے، قابض اسرائیلی افواج کا مرحلہ وار انخلا اور بعد ازاں غزہ کے انتظامات کا مکمل اختیار مجوزہ آزاد فلسطینی انتظامی کمیٹی کو منتقل کیا جائے گا۔