Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

غزہ : اسیران کی لاشوں پر وحشیانہ تشدد, بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ

غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) یورومیڈیٹرینیئن انسانی حقوق آبزرویٹری نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کے درجنوں فلسطینی قیدیوں کی لاشیں حوالے کی گئی ہیں جن پر بدترین تشدد، اذیت اور درندگی کے واضح آثار موجود ہیں۔ ادارے نے کہا ہے کہ یہ شواہد اس بات کا ثبوت ہیں کہ متعدد فلسطینیوں کو قید کے دوران دانستہ طور پر اذیت دے کر قتل کیا گیا، جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ آبزرویٹری نے عالمی برادری سے فوری، آزاد اور شفاف بین الاقوامی تحقیق کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اس لرزہ خیز جرم کے مرتکبین کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے اور مجرموں کو سزاؤں سے بچنے کا کوئی راستہ نہ مل سکے۔

آبزرویٹری کے مطابق قابض اسرائیلی حکام نے بین الاقوامی کمیٹی برائے ریڈ کراس کے ذریعے تین مرحلوں میں 120 فلسطینیوں کی لاشیں غزہ کو واپس کیں، جن میں 45 لاشیں منگل کے روز، 45 بدھ کو اور 30 جمعرات کو حوالے کی گئیں۔ ان میں درجنوں لاشیں ایسی ہیں جن کی شناخت تاحال ممکن نہیں ہو سکی۔

طبی معائنوں اور فرانزک رپورٹس سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بیشتر شہداء کو قید کے دوران تشدد کرکے قتل کیا گیا۔ ان کی لاشوں پر گلا گھونٹنے کے نشانات، گولیوں کے زخم جو قریب سے فائر کیے گئے، ہاتھ پاؤں پلاسٹک کی رسیوں سے بندھے ہوئے، آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی اور جسموں پر بدترین تشدد، جلنے اور ہڈیوں کے ٹوٹنے کے آثار نمایاں تھے۔ کئی لاشیں ٹینکوں کے ٹریکس کے نیچے کچلی گئیں۔

غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البرش نے بتایا کہ “ہم نے جو لاشیں وصول کیں وہ جانوروں کی طرح جکڑی ہوئی تھیں، ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی تھیں اور جسموں پر اذیت اور جلنے کے واضح آثار تھے جو قابض اسرائیلی درندگی کی انتہائی بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہ لوگ قدرتی موت نہیں مرے، بلکہ انہیں قید میں اذیت دے کر قتل کیا گیا۔ مہینوں تک ان کی لاشیں قبضے کی فریزرز میں چھپائی گئیں۔”

فرانزک ماہرین نے تصدیق کی کہ 120 میں سے صرف چھ شہداء کی شناخت ممکن ہو سکی ہے، جبکہ باقی لاشوں کی حالت انتہائی خوفناک ہے۔ ایک شہید، جس کی لاش نمبر H32 NMC 14/10/2025 کے نام سے درج کی گئی، واضح طور پر گلا گھونٹ کر قتل کی گئی تھی جبکہ ہاتھ پاؤں بندھے اور آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔

آبزرویٹری نے بتایا کہ غزہ میں موجودہ حالات میں تکنیکی ذرائع نہ ہونے کے باعث لاشوں کی درست شناخت، حراست کی تفصیلات اور قتل کے اسباب کی جانچ ممکن نہیں، جس کے باعث درجنوں خاندان اپنے پیاروں کے انجام سے لاعلم ہیں۔

یورومیڈیٹرینیئن آبزرویٹری نے فوری طور پر آزاد فرانزک ٹیموں، ڈی این اے ماہرین اور طبی وفود کو غزہ بھیجنے کا مطالبہ کیا تاکہ شناخت کا عمل تیز کیا جا سکے، شواہد محفوظ رہیں اور متاثرہ خاندانوں کو انسانی و نفسیاتی مدد فراہم کی جا سکے۔

ادارے نے کہا کہ یہ شواہد قابض اسرائیل کے ہاتھوں اسیران کے خلاف منظم تشدد، اذیت اور اجتماعی قتل کی ایک پالیسی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ رویہ واضح طور پر اس بات کی علامت ہے کہ قابض اسرائیلی ریاست فلسطینی قیدیوں کے جسمانی اور نفسیاتی طور پر خاتمے کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے تاکہ فلسطینی قوم کو اجتماعی طور پر مٹایا جا سکے۔

آبزرویٹری نے زور دیا کہ یہ واقعات اجتماعی قتل، ممنوعہ اذیت، انسانیت سوز سلوک اور انسانی وقار کی پامالی جیسے بین الاقوامی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان جرائم پر فوری بین الاقوامی عدالتی کارروائی ناگزیر ہے۔

ادارے کے مطابق بیشتر لاشوں کے حوالے سے نہ تو حراست کی تفصیلات معلوم ہیں اور نہ ہی قتل کے حالات۔ ہاتھ پاؤں بندھے اور آنکھوں پر پٹی بندھی قیدیوں کا قتل کسی بھی حالت میں قابل جواز نہیں، بلکہ یہ بین الاقوامی قانون کے مطابق مکمل جنگی جرم ہے چاہے مقتول عام شہری ہو یا جنگ کے دوران گرفتار ہونے والا مجاہد۔

آبزرویٹری نے واضح کیا کہ قابض اسرائیل نے قیدیوں کے ساتھ کسی بھی قانونی یا انسانی اصول کے تحت برتاؤ نہیں کیا بلکہ ایک وحشی ریاست کی طرح ان کے قتل و تشدد کو ایک منظم پالیسی میں بدل دیا ہے۔

ادارے نے کہا کہ قابض اسرائیلی حکومت اور میڈیا کا وہ بیانیہ جس میں فلسطینیوں کو غیر انسانی، قابلِ قتل مخلوق کے طور پر پیش کیا گیا، دراصل اسی نسل کشی کی فکری بنیاد ہے۔ اس نفرت انگیز بیانیے نے تشدد، اذیت اور اعدام کو جائز قرار دیا، جس کے نتیجے میں اجتماعی قتل اور قید میں ہلاکتوں کی شرح غیر معمولی حد تک بڑھ گئی۔

یورومیڈیٹرینیئن آبزرویٹری نے مطالبہ کیا کہ آزاد انسانی حقوق کے اداروں اور طبی ٹیموں کو فوری طور پر غزہ جانے کی اجازت دی جائے تاکہ ان شہداء کی شناخت اور موت کی وجوہات طے کی جا سکیں۔ ان خاندانوں کو اپنے پیاروں کی تدفین اور حقیقت جاننے کا حق ہے۔ ان کی یہ محرومی بذاتِ خود اذیت کی ایک طویل شکل ہے۔

آبزرویٹری نے اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت سے مطالبہ کیا کہ وہ قابض اسرائیل کے ان سنگین جرائم کو فوری طور پر اپنی تحقیقات میں شامل کریں کیونکہ یہ جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور اجتماعی نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں۔

قابض اسرائیل کی ان درندانہ کارروائیوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون، انسانی اقدار اور اخلاقی حدود سے مکمل طور پر آزاد ایک دہشت گرد ریاست ہے جو فلسطینی قوم کے مادی اور معنوی وجود کو مٹانے کے لیے ہر حد پار کر چکی ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan