دوحہ۔(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے سینئر رہنما غازی حمد نے کہا ہے کہ حماس تمام فریقوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے تاکہ قابض اسرائیل کے ساتھ طے پانے والے سمجھوتے پر اس کی مکمل روح کے مطابق عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس مقصد کے لیے عرب دنیا اور عالمی برادری کو آگے بڑھ کر وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے غزہ اور غرب اردن میں بڑھتے ہوئے جنون کو لگام دینا ہوگی۔
غازی حمد نے زور دیا کہ قابض اسرائیل کے طرزِ عمل پر سخت نگرانی ضروری ہے تاکہ یہ اطمینان کیا جا سکے کہ وہ سمجھوتے کی تمام شقوں پر عمل کر رہا ہے۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں انکشاف کیا کہ قابض اسرائیل قیدیوں کی فہرستوں میں ہیر پھیر کر رہا ہے اور حتیٰ کہ امریکہ کے سامنے بھی دھوکہ دہی سے کام لے رہا ہے۔ ان کے مطابق حماس نے اسرائیلی اسیران کے تبادلے کے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں مگر صہیونی حکومت بدستور تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے اور جان بوجھ کر نفاذ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس تمام پیش رفت سے ثالثوں کو لمحہ بہ لمحہ آگاہ رکھ رہی ہے تاکہ کسی بھی خلاف ورزی کی ذمہ داری واضح طور پر طے کی جا سکے۔
غازی حمد نے بتایا کہ تحریک حماس اس وقت مکمل جنگ بندی، قابض اسرائیلی فوج کے انخلا، قیدیوں کے تبادلے اور انسانی امداد کو غزہ میں فوری طور پر داخل ہونے کی ضمانت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
انہوں نے فلسطینی دھڑوں کے درمیان قومی سطح پر جامع مذاکرات کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ سمجھوتے کے اگلے مراحل پر مشترکہ موقف تشکیل دیا جا سکے۔
حمد نے کہا کہ آنے والے چند گھنٹے اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ قابض اسرائیل سمجھوتے پر کتنا عمل کرتا ہے، اور اسی بنیاد پر حماس اپنے فیصلے طے کرے گی۔
یہ معاہدہ جمعے کو دوپہر 12 بجے سے نافذ العمل ہوا جب قابض اسرائیل کی کابینہ نے اسے رات گئے منظور کیا۔
یہ سمجھوتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے پر مبنی ہے، جس میں جنگ بندی، قابض فوج کا بتدریج انخلا، فریقین کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ اور فوری انسانی امداد کی فراہمی شامل ہے۔
تاہم امریکی پشت پناہی میں قابض اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر سنہ2023ء سے مسلسل دو برسوں تک غزہ میں انسانیت سوز قتل عام برپا کیا جس کے نتیجے میں اب تک 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید، 1 لاکھ 70 ہزار زخمی اور ہزاروں خاندان صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے۔ شہداء میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے جبکہ قحط و بھوک کے باعث مزید 460 فلسطینیوں نے دم توڑ دیا جن میں 154 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔