غزہ(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کی وزارتِ صحت نے اعلان کیا ہے کہ تباہ حال طبی نظام کی بحالی کے لیے کم از کم 7 ارب ڈالر درکار ہیں۔ وزارت صحت کے مطابق وہ آج اتوار کے روز تقریباً 1900 فلسطینی اسیران کو وصول کرنے کی تیاری کر رہی ہے جنہیں قابض اسرائیل اسیران کے تبادلے کے معاہدے کے تحت رہا کرے گا۔
قابض اسرائیلی حکام نے ہفتے کے روز پانچ مختلف جیلوں سے 1900 فلسطینی اسیران کو نکال کر “عوفر” اور “النقب” جیلوں میں منتقل کیا تاکہ انہیں حماس کے ساتھ طے پانے والے اسیران کے تبادلے کے معاہدے کے تحت رہا کیا جا سکے۔
یہ معاہدہ تقریباً 250 ایسے فلسطینی اسیران کی رہائی پر مشتمل ہے جنہیں عمر قید کی سزا دی گئی تھی اور ان کے ساتھ 1700 ایسے افراد شامل ہیں جنہیں قابض فوج نے 7 اکتوبر سنہ2023ء کے بعد غزہ سے گرفتار کیا تھا۔
وزارتِ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البُرش نے بتایا کہ ناصر میڈیکل ہسپتال کو اسیران کے استقبال کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول تمام اسیران کے مکمل طبی معائنے کیے جائیں گے تاکہ ان کی صحت کا جامع جائزہ لیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت کو بڑی تعداد میں شہداء کی لاشیں بھی موصول ہوں گی، امید ہے ان میں طبی عملے کے ارکان کی میتیں بھی شامل ہوں گی جو اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے شہید ہوئے۔
ڈاکٹر البُرش نے الجزیرہ سے گفتگو میں بتایا کہ وزارت نے ڈاکٹر حسام ابو صفیہ اور ڈاکٹر مروان الہمص کے نام بھی رہائی کے لیے شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ ان دونوں نے اپنی قوم اور وطن کے لیے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ وہ واپس آئیں۔
انہوں نے کہا کہ قید و بند کی صہیونی جیلوں میں غیر انسانی حالات کے باعث کئی فلسطینی اسیران جلدی بیماریوں خصوصاً خارش اور جرب میں مبتلا ہیں۔ اس کے باوجود غزہ میں تباہی اور ادویات کی شدید قلت کے باوجود وزارت صحت انہیں مکمل علاج فراہم کرنے کی کوشش کرے گی۔
ڈاکٹر البُرش نے واضح کیا کہ جنگ بندی کے بعد وزارت صحت کی ترجیح کم از کم بنیادی طبی خدمات کو دوبارہ بحال کرنا ہے کیونکہ قابض اسرائیل کی درندگی نے غزہ کے ہسپتالوں اور طبی مراکز کو کھنڈر بنا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت کی ٹیمیں اس وقت مجموعی صحت کے نظام کا جائزہ لے رہی ہیں اور تمام طبی اداروں میں تباہی کے حجم کا تخمینہ لگا رہی ہیں۔ ان کے مطابق تقریباً 17 ہزار مریض اور زخمی ایسے ہیں جنہیں فوری طور پر علاج کے لیے بیرون ملک منتقل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ غزہ کے اندر بیشتر طبی مراکز بند ہو چکے ہیں اور ادویات و آلات کی شدید کمی ہے۔
وزارتِ صحت نے ہفتے کے روز اپنے بیان میں کہا کہ غزہ کے طبی نظام کو منظم اور منصوبہ بند تباہی کا سامنا دو سال سے ہے جسے اب ازسرنو بحال کرنے کے لیے کم از کم 7 ارب ڈالر درکار ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی عطیہ دہندگان کی جانب سے بارہا وعدوں کے باوجود تاحال طبی آلات کی فراہمی کے لیے کوئی واضح ٹائم فریم طے نہیں کیا گیا۔ وزارت نے عالمی برادری سے فوری مطالبہ کیا کہ غزہ کی سرحدی گزرگاہیں کھولی جائیں تاکہ ہزاروں مریض اور زخمی بیرونِ ملک علاج کے لیے جا سکیں۔
وزارتِ صحت نے دنیا بھر کے ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری مالی امداد فراہم کریں تاکہ غزہ کے صحت کے شعبے کو ازسرنو فعال کیا جا سکے اور جدید طبی آلات، ادویات اور علاج کے وسائل اندرونِ غزہ پہنچائے جا سکیں۔
واضح رہے کہ جنگ بندی اور اسیران کے تبادلے کا معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیش کردہ اس نام نہاد منصوبہ بندی پر مبنی ہے جس کے تحت جنگ کا عارضی خاتمہ، قابض فوج کا بتدریج انخلا، اسیران کا تبادلہ اور انسانی امداد کا محدود داخلہ شامل ہے۔