غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) یورومیڈیٹیرین مانیٹر برائے انسانی حقوق نے عالمی صحافیوں، بین الاقوامی میڈیا اداروں، حقائق جانچنے والی کمیٹیوں، اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں، عالمی فوجداری عدالت کے تفتیش کاروں اور دیگر بین الاقوامی ماہرین کو غزہ پٹی میں بلا کسی رکاوٹ داخلے کی فوری اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ قابض اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر ڈھائے گئے نسل کشی کے جرائم کو دستاویزی شکل دی جا سکے اور ان کے مرتکبین کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
یورومیڈیٹیرین مانیٹر نے اپنے بیان میں کہا کہ مصر، قطر، ترکیہ اور امریکہ کی سرپرستی میں طے پانے والے فائر بندی کے معاہدے کی کامیابی کا انحصار اسی بات پر ہے کہ کیا قابض اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتا ہے اور غزہ میں جاری فلسطینی نسل کشی کو روکتا ہے۔ ادارے نے کہا کہ حقیقی امن اس وقت ممکن ہے جب غیر قانونی قبضے کا مکمل خاتمہ، غزہ کا محاصرہ ختم، فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ نظام کا انہدام اور ان کے حق خودارادیت کی ضمانت دی جائے۔
مانیٹر نے زور دیا کہ غزہ کو فوری طور پر بین الاقوامی صحافیوں کے لیے کھولنا ضروری ہے تاکہ وہ موقع پر جا کر اس انسانی المیے کو رپورٹ کر سکیں جو قابض اسرائیل کی منظم نسل کشی کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ قابض اسرائیل نے دانستہ طور پر فلسطینی صحافت کو خاموش کرنے کے لیے کم از کم 254 صحافیوں کو شہید کیا اور میڈیا اداروں کو تباہ کر دیا، جبکہ عالمی میڈیا کو داخل ہونے سے مسلسل روکا گیا۔
ادارے نے عالمی ذرائع ابلاغ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ٹیمیں فوراً غزہ بھیجیں تاکہ تباہی کی شدت، شہریوں کی حالت اور فائر بندی پر عمل درآمد کی نگرانی کی جا سکے۔ یورومیڈیٹیرین مانیٹر نے کہا کہ غزہ کی حقیقت دکھانا محض صحافتی فریضہ نہیں بلکہ انسانیت اور ضمیر کی پکار ہے۔
مانیٹر نے کہا کہ صحافت پر پابندیاں لگانا یا تحقیقاتی کمیٹیوں کو غزہ آنے سے روکنا دراصل حقائق چھپانے، ثبوت مٹانے اور بین الاقوامی انصاف کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس خاموشی نے قابض اسرائیل کو سزا سے بچنے کا موقع دیا ہے اور انصاف کے امکانات کو کمزور کیا ہے۔
یورومیڈیٹیرین مانیٹر نے غزہ میں فرانزک ماہرین اور تکنیکی ٹیموں کو فوری داخلے کی اجازت دینے کا بھی مطالبہ کیا، تاکہ وہ ملبے سے شہداء کی لاشیں نکالنے، شناخت کرنے اور لاپتا افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں مدد دے سکیں۔ ادارے نے کہا کہ یہ اقدام سچائی کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی کے لیے ناگزیر ہے۔
مانیٹر نے بتایا کہ فائر بندی کے پہلے دن اس کی ٹیموں نے مختلف علاقوں میں بڑی تعداد میں شہداء کی لاشیں دیکھی ہیں جو قابض اسرائیلی بمباری کے دوران ملبے تلے دب گئیں اور طویل عرصے تک پڑے رہنے سے مکمل طور پر گل سڑ گئیں۔ امدادی ٹیموں نے اب تک 135 شہداء کی لاشیں نکالی ہیں، جن میں اکثریت غزہ شہر کے باشندوں کی ہے۔ تاہم بڑی تعداد ابھی بھی ملبے تلے ہے اور آلات کی کمی کے باعث نکالی نہیں جا سکیں۔
ادارے نے اقوام متحدہ کی آزاد تحقیقاتی کمیشن، عالمی فوجداری عدالت اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے تفتیش کاروں کو غزہ میں بلا تاخیر داخلے کی اجازت دینے پر زور دیا تاکہ وہ قابض اسرائیلی افواج کے جرائم کے ثبوت جمع کر سکیں اور مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لا سکیں۔
مانیٹر نے کہا کہ غزہ کے عوام کو محض فائر بندی نہیں بلکہ مکمل انصاف اور نسل کشی کے تسلسل کا خاتمہ درکار ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ غزہ کا محاصرہ مکمل طور پر ختم کیا جائے، نقل و حرکت پر عائد پابندیاں ہٹائی جائیں اور ایک جامع بحالی و امدادی منصوبہ تیار کیا جائے جو متاثرین کو دوبارہ زندگی کے بنیادی تقاضے فراہم کرے۔
ادارے نے زور دیا کہ کسی بھی فائر بندی معاہدے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔ شہریوں کا تحفظ، انسانی امداد کی فراہمی اور ان کی آزادی غیر مشروط ہونی چاہیے کیونکہ یہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ان کا حق ہے۔
مانیٹر نے کہا کہ فائر بندی صرف وقتی طور پر بمباری روکنے یا محدود امداد دینے کا نام نہیں، بلکہ اس میں قابض اسرائیلی جارحیت کے مکمل خاتمے، محاصرہ اٹھانے اور تعمیر نو کے لیے ضروری اشیاء کی آزادانہ فراہمی کو یقینی بنانا شامل ہے۔
ادارے نے مزید کہا کہ قابض اسرائیلی فوج کا فوری اور مکمل انخلا، بنیادی ڈھانچے اور تباہ شدہ تعلیمی، طبی اور شہری اداروں کی از سر نو تعمیر غزہ کی بحالی کے لیے ناگزیر ہے۔
یورومیڈیٹیرین مانیٹر نے خبردار کیا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ میں “محفوظ زون” یا “سکیورٹی بیلٹ” کے قیام کی کسی بھی کوشش کا مقصد علاقے کو جغرافیائی اور آبادیاتی طور پر تقسیم کرنا اور اس کے حصے غیر قانونی طور پر ضم کرنا ہے، جو نسل پرستانہ تسلط کی ایک نئی شکل ہے۔ یہ علاقے غزہ کے سب سے زرخیز علاقے ہیں جنہیں چھین لینا دراصل فلسطینی عوام کے غذائی تحفظ اور بقاء پر حملہ ہے۔
مانیٹر نے خبردار کیا کہ کسی بیرونی سیاسی یا سکیورٹی نگرانی کو قبول کرنا فلسطینی عوام کے حق خودارادیت پر حملہ ہوگا۔ یہ منصوبے قابض اسرائیل کی بالادستی کے تسلسل اور فلسطینی ریاست کو توڑنے کی سازش ہیں تاکہ غزہ کو باقی فلسطینی علاقوں سے کاٹ کر الگ تھلگ کیا جا سکے۔
ادارے نے زور دیا کہ فلسطینی علاقوں بشمول مغربی کنارے اور مقبوضہ القدس کی علاقائی وحدت اور نقل و حرکت کی آزادی برقرار رکھنا کسی بھی منصفانہ تصفیے کی بنیادی شرط ہے۔
مانیٹر نے کہا کہ اگر کسی منصوبے میں فلسطینیوں کے حق خودارادیت کو نظر انداز کیا گیا تو یہ صرف نئے ظلم کی بنیاد بنے گا۔ انسانی حقوق کو نظرانداز کرنا یا قابض اسرائیلی جرائم پر خاموشی دراصل اس نظام کو مزید مضبوط بناتا ہے جس نے نسل کشی کو ممکن بنایا۔
ادارے نے زور دیا کہ عالمی برادری نسل کشی کے تکرار کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔ نسل کشی کو روکنا کوئی سیاسی انتخاب نہیں بلکہ ایک اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے۔
یورومیڈیٹیرین مانیٹر نے واضح کیا کہ اگر عالمی طاقتیں خاموش رہیں یا قابض اسرائیلی جرائم پر نرم رویہ اختیار کریں تو یہ ان جرائم کی دوبارہ تکرار کی راہ ہموار کرے گا۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ بین الاقوامی احتسابی نظام فعال کیا جائے، جنگی مجرموں کو سزا دی جائے اور متاثرین کو مکمل اور منصفانہ معاوضہ دیا جائے۔
ادارے نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اپنے قانونی فرائض کے مطابق فوری طور پر اقدام کرے تاکہ فلسطینی عوام کو آزادی، عزت اور خودمختاری کا حق ملے، قابض اسرائیلی استعمار اور نسلی امتیاز کے نظام کا خاتمہ ہو، سنہ1967ء سے مقبوضہ تمام فلسطینی زمینوں سے مکمل انخلا کیا جائے، غیر قانونی محاصرہ ختم کیا جائے اور فلسطینیوں کو انصاف اور ازالہ فراہم کیا جائے تاکہ دنیا میں ایک حقیقی اور پائیدار امن کی بنیاد رکھی جا سکے۔