Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

گھر نہیں مگرہمارے دلوں میں گھروں کی یاد موجود ہے:فلسطینی شہری

غزہ(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کی سمت جانے والی ساحلی شاہراہ الرشید پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں فلسطینی شہری اپنے تباہ شدہ علاقوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ ان کے قدم اس خواب کو پھر چکناچور کر رہے ہیں جو قابض اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے جلاوطن کر کے ایک نیا آبادیاتی نقشہ مسلط کرنے کے لیے دیکھا تھا۔

یہ وہ مرد، عورتیں اور بچے ہیں جنہوں نے کئی ماہ خیموں میں گزاریے، اب وہ اس سمت بڑھ رہے ہیں جہاں کبھی ان کے گھر ہوا کرتے تھے۔

ان میں ایک پچاس سالہ خاتون اپنے پوتے کا ہاتھ تھامے دھیرے دھیرے چل رہی ہیں۔ لبوں پر درد بھری سرگوشی ہے “شاید گھر اب نہ ہو، مگر ہمیں معلوم ہے وہ کہاں تھا. یہودیوں نے سارا محلہ مٹا دیا”۔

دوسری بڑی واپسی

یہ غزہ کی سرزمین پر دو برسوں کے اندر دوسری بڑی واپسی ہے۔ لاکھوں بے گھر فلسطینی جنوبی غزہ سے شمالی علاقوں کی طرف لوٹ رہے ہیں، کیونکہ قابض اسرائیلی فوج پیچھے ہٹ چکی ہے اور فائر بندی کا معاہدہ نافذ العمل ہو گیا ہے۔

واپسی کا سفر — ایک نامعلوم منزل کی جانب

تباہ شدہ سڑکوں پر خاندانوں کے قافلے رواں ہیں۔ کئی اپنے سینوں پر اُن پیاروں کی تصویریں سجائے ہیں جو گذشتہ جنگ میں لاپتا ہوئے۔ شاید کوئی انہیں پہچان لے، شاید کوئی سراغ مل جائے۔

چہرے خاموش ہیں، مگر دلوں میں طوفان ہے۔ یہ خاموشی کمزوری نہیں بلکہ اس دکھ کی گواہی ہے جس کے لیے الفاظ ختم ہو گئے۔

بیت لاھیا کے رہائشی استاد سلیم الہباش اپنے بچے کے ہاتھ میں بنا ایک چھوٹی سا نقشہ لیے ہیں ۔ نقشہ اُس گھر کا جو کبھی تھا۔ جب وہ وہاں پہنچے تو سب کچھ ملبے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ مگر وہ سجدہ شکر میں گر پڑے، آنکھوں میں یقین کے آنسو تھے “اللہ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا”۔

سلام ہو ان پر جو ملبوں کے بیچ اپنے گھروں کو ڈھونڈنے نکلے۔ ان پر جو دیواروں کے نہیں بلکہ ایمان اور صبر کے وطن کو دوبارہ تعمیر کر رہے ہیں۔ وہ اپنے زنگ نہ کھانے والے دروازوں کی چابیاں تھامے ہیں، ان دلوں کے ساتھ جو شکست نہیں جانتے۔

شہر جس کا نقشہ بدل گیا

جب یہ انسانی قافلے غزہ شہر کے کنارے پہنچے تو لگتا تھا جیسے شہر نے اپنا چہرہ کھو دیا ہو۔

الوحدہ، النصر اور الجلاء جیسے مرکزی راستے ملبے کے بھٹکانے والے جال بن گئے ہیں۔

ندین المصری الرملہ محلے کی ایک یونیورسٹی طالبہ ہیں، آنسوؤں میں ڈوبا منظر بیان کرتی ہیں “یہاں اب صرف ہوا کی آواز ہے۔ کبھی یہی جگہ بچوں کی قہقہوں، گلی محلوں کی رونقوں سے بھری رہتی تھی۔ آج تو پرندے بھی یہاں نہیں آتے”۔

یادیں جو ہوا میں تحلیل ہو گئیں

چند میل کے فاصلے پر ابو سامر دلول کھڑے ہیں۔ وہ ایک ٹیکسی ڈرائیور ہیں جن کا گھر اور روزگار دونوں ختم ہو گئے۔ وہ ملبے کے ایک ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ “یہ میرے بچوں کا کمرہ تھا۔ ہر صبح انہیں سکول بھیجتا تھا۔ آج نہ کمرہ ہے نہ سکول”۔

وہ ملبوں میں سے کوئی کھلونا یا پرانی نوٹ بک ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اردگرد بچے انہی کھنڈرات میں کھیل رہے ہیں، جیسے وہ کوئی پارک ہو۔ انہیں معلوم نہیں کہ یہ مٹی کبھی ان کے اپنے گھروں کی تھی۔

جنگ کے بعد کی زندگی

غزہ کے شہریوں کے ہونٹوں پر اب بھی ایک ہی جملہ ہے “الحمدللہ، ہم اسے پھر سے بسائیں گے”۔

خان یونس کی سماجی کارکن رُبى شِہاب کہتی ہیں کہ “یہ لوگ گھروں کو نہیں، یادوں کو لوٹ رہے ہیں۔ مگر یہی لوٹنا زندگی کی ایک نئی شکل ہے۔ دو سال کے جہنم کے بعد بھی یہ واپسی امید کی ایک کرن ہے”۔

وہ کہتی ہیں “تھکن ہے، خوف ہے، مگر زندگی کی دھڑکن بھی ہے۔ لوگ جینا چاہتے ہیں، چاہے ملبوں پر ہی کیوں نہ سہی”۔

ایک ایسی جنگ بندی جو امن نہیں

الشفاء ہسپتال کے ڈاکٹر خالد العراج بتاتے ہیں کہ جنگ بندی کے باوجود کچھ نہیں بدلا۔ “لوگ واپس آرہے ہیں مگر بجلی نہیں، پانی نہیں، ہسپتال کام کے قابل نہیں۔ یہ سیاسی جنگ بندی ہے انسانی نہیں۔ اب بھی ہم مریضوں کا علاج خیموں میں کر رہے ہیں”۔

وہ کہتے ہیں کہ “پھر بھی یہ واپسی شفا کا پہلا مرحلہ ہے۔ انسان کو اپنا گھر دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے وہ ملبہ ہی کیوں نہ رہ گیا ہو، تاکہ اسے یقین ہو کہ وہ اب بھی موجود ہے”۔ سورج غروب ہوا تو دو سال بعد پہلی بار غزہ پر ایک عجیب سا سکون چھا گیا۔ مگر یہ سکوت اُس بربادی کے بعد کا ہے جس میں قابض اسرائیل نے سات سو تیس دنوں تک آگ اور بارود کی بارش برسانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan