غزہ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) غزہ کی پٹی میں طبی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ جمعے کی صبح سے اب تک 152 فلسطینی شہداء کی لاشیں مختلف ہسپتالوں میں لائی گئی ہیں، جن میں سے 132 شہداء کی لاشیں ملبے کے نیچے سے نکالی گئیں۔
ذرائع کے مطابق قابض اسرائیلی فوج کی بمباری فائر بندی کے اعلان کے باوجود نہیں رکی۔ ان حملوں میں مزید 16 فلسطینی شہید ہوئے، جبکہ ایک شہری اپنے سابقہ زخموں کے باعث دم توڑ گیا۔
غزہ شہر کے الشفاء ہسپتال میں 43 شہداء کی لاشیں پہنچیں، الاهلی العربی (المعمدانی) ہسپتال میں 60 شہداء لائے گئے، النصیرات کے العودہ ہسپتال میں 4 شہداء، دیر البلح کے شہداء الاقصیٰ ہسپتال میں 13 شہداء اور خانیونس کے ناصر ہسپتال میں 32 شہداء کی میتیں منتقل کی گئیں۔
قابض اسرائیلی افواج نے امریکہ اور مغربی ممالک کی کھلی حمایت کے ساتھ سات اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ کی پٹی پر نسل کشی کی جنگ مسلط کر رکھی ہے، جس میں اب تک 2 لاکھ 37 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ درجنوں شہداء کی لاشیں اب بھی ملبے کے نیچے دبی ہوئی ہیں، جن تک ایمبولینس اور ریسکیو ٹیمیں قابض فوج کی رکاوٹوں کے باعث نہیں پہنچ پا رہیں۔
دو سال سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی اس درندگی اور قتل عام کے بعد آج جمعہ کی صبح فائر بندی کے معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوا۔ قابض اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ اس کی افواج معاہدے کے مطابق “پیلی لکیر” تک پیچھے ہٹ گئی ہیں۔
فائر بندی کے اعلان کے بعد لاکھوں بے گھر فلسطینی شمالی غزہ کی طرف واپس جانے لگے۔ قابض فوج نے بتایا کہ شہریوں کو دو مرکزی شاہراہوں، شارع الرشید اور شارع صلاح الدین، کے ذریعے غزہ شہر اور شمالی علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
یہ فائر بندی ایک جامع سیاسی معاہدے کا حصہ ہے جس کی سرپرستی امریکہ، مصر، قطر اور ترکیہ نے کی۔ یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مجوزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس مرحلے کے مطابق مکمل فائر بندی، قابض اسرائیل کی جزوی انخلا، قیدیوں کے تبادلے اور امدادی قافلوں کی آزادانہ آمدورفت کی شقیں شامل ہیں۔
فلسطینی عوام اس فائر بندی کو اپنے صبر و استقامت کی ایک علامت کے طور پر دیکھ رہے ہیں، مگر غزہ کی تباہ شدہ عمارتوں، برباد ہسپتالوں، اجڑے گھروں اور ملبے سے اٹھتی آہوں سے واضح ہے کہ قابض اسرائیل کی یہ جنگ انسانیت کے خلاف ایک ناقابلِ معافی جرم بن چکی ہے۔