Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

پی ایل ایف نیوز

فلسطین مزاحمت اور وقار کا استعارہ ہے

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم (سیکرٹری جنرل، فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان)سات اکتوبر 2023کو غزہ میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ہاتھوں شروع ہونے والی نسل کشی کو دو سال مکمل ہو چکے ہیں۔ دو سال تک مغربی دنیا تماشا دیکھنے کے بعد اب فلسطین میں امن کے لئے ظاہری کوشش میں نظر آ رہی ہے۔ صرف تماشہ ہی نہیں بلکہ مغربی حکومتوں بالخصوص امریکہ نے غزہ میں جاری نسل کشی کی بھرپور مدد بھی کی ہے۔
حالیہ دنوں امریکی صدر ٹرمپ نے اکیس نقاط کا امن معاہدہ متعارف کروایا جس کو مسلم دنیا کےا ٓٹھ ممالک نے بھی تسلیم کیا اور اب اسی فارمولہ کی کچھ شکل تبدیل ہونے کے بعد حما س نے بھی ترکی، قطر اور مصر کے عہدیداروں کی موجودگی میں تسلیم کر لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاہدہ حما س نے نہیں بلکہ امریکہ نے تسلیم کیا ہے۔کیونکہ جو معاہدہ امریکی صدر نے تشکیل دیا تھا ا س میں کئی ایک ترامیم حماس کی جانب سے کی گئی تھیں اور اب اس معاہدے پر بتایا جا رہاہے کہ تمام فریقین متفق ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایک خطرہ اب بھی منڈلا رہاہے اور وہ ہے نیتن یاہو کہ جو ہمیشہ سے ہٹ دھرمی سے کام لیتا آیاہے ۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھ رہاہے کہ امریکی حکومت کہ جس نے گذشتہ دو برس میں کم وبیش چھ مرتبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا اب آخر ایسی کون سے قیامت آن پڑی ہے کہ امریکی صدر اس قدر عجلت میں ہیں کہ مسلسل بیانات دئیے جا رہے تھے کہ جلد از جلد اس معاہدے کو تسلیم کیا جائے ۔اس سوال کا جواب شاید یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غزہ کی دلدل میں دھنستے ہوئے نیتن یاہو کو نکالنے کے لئے امریکی صدر ٹرمپ عجلت میں ہیں۔ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمیشہ کی طرح کریڈٹ لینے کی دوڑ میں ٹرمپ دوڑے چلے جا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کو نوبل انعام دے دیا جائے ۔ حالانکہ حقیقت تو اس کے بر عکس ہے کہ امریکی حکومت نے اربوں ڈالر کا اسلحہ صرفا ن دو سالوں میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو دیا ہے اور امن کے لئے آنے والی قراردادوں کو ویٹو کیا ہے تو اب یہ نام نہاد امن معاہدے کی حقیقیت ایک ڈھونگ سے زیادہ کچھ اور نہیں ہو سکتی ۔
بہر حال غزہ میں جاری طویل اور تباہ کن جنگ کے بعد ہونے والا حالیہ جنگ بندی معاہدہ فریقین نے تسلیم کر لیا ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف عسکری لحاظ سے بلکہ سیاسی و اخلاقی محاذ پر بھی فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کی ایک بڑی کامیابی کے طور پردیکھا جا رہاہے۔ عالمی سطح پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف بڑھتے ہوئے دباؤ، انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں، اور فلسطینی عوام کی بے مثال مزاحمت اور اہل غزہ کی استقات کا ثمر ہے کہ حماس کی جانب سے از سر نو تشکیل دیا جانے والا معاہدہ تسلیم کے مراحل میں آ چکا ہے۔یہ معاہدہ ایک معمولی جنگ بندی نہیں بلکہ طاقت کے توازن میں ایک نمایاں تبدیلی کا مظہر ہے، جس نے اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کے تاثر کو توڑ کر رکھ دیا۔
حماس کی سیاسی و عسکری قیادت نے اس جنگ کے دوران جس حکمتِ عملی کا مظاہرہ کیا، وہ نہ صرف عسکری لحاظ سے موثر تھی بلکہ نفسیاتی اور سفارتی محاذ پر بھی کامیاب ثابت ہوئی۔حماس نے جو جنگ سات اکتوبر 2023کو میدان میں جیت لی تھی اسے دو سال تک بیانیہ کے میدان میں بھی جیت کر دکھایا اور اب دو سال بعد جب امریکی صدر ٹرمپ اپنی شکست کو مذاکرات کی میز پر کامیابی میں بدلنا چاہتا تھا اس موقع پر بھی حماس نے بہترین سفارتکاری کا مظاہرہ کیا اور میز پر بچھائی شطرنج کی چال کو بھی دشمن کے لئے الٹا دیاہے۔ یقینی طور پر یہ ایک عظیم کامیابی ہے۔
فلسطینی مزاحمتی گروہوں حماس اور جہاد اسلامی نے انتہائی محدود وسائل کے باوجود اسرائیلی دفاعی نظام “آئرن ڈوم” کو چیلنج کیا ۔اسے ناکام بنا کر دکھایا۔ اسی طرح غاصب صیہونی حکومت کا بھرم کہ اگر کوئی اسرائیل پر حملہ کرے تو اسرائیل کی صلاحیت ہے کہ وہ اگلے پانچ منٹ کے اندر اپنے نقصان کو ری کور کر سکتا ہے اس بھر م کو حما س نے سات اکتوبر کے دن چار گھنٹے کے آپریشن میں مکمل طور پر دفن کیا اور دنیا کو بتا دیا کہ اسرائیل مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہے۔
مزاحمتی گروہوں نے غزہ کے محصور علاقے سے مزاحمتی کارروائیوں کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ طاقت صرف عسکری ساز و سامان سے نہیں بلکہ عزم و ایمان سے پیدا ہوتی ہے۔
فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے اپنی کامیاب حکمت عملی کے ساتھ غاصب اسرائیلی عوام اور فوج میں خوف اور عدم اعتماد پیداکیا۔ عالمی رائے عامہ پہلی بار کھل کر فلسطینیوں کے حق میں بولنے لگی۔دنیا نے دیکھ لیا کہ اسرائیل ایک غاصب اور سفاک اور دہشت گرد ریاست ہے جو انسانیت کی دشمن ہے۔یہ سب کچھ سات اکتوبر کی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔جنگ کے میدان کے بعد سفارتی میدان میں بھی حماس نے بین الاقوامی میڈیا پر بیانیہ تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اسرائیل کی جنگی جرائم پر عالمی سطح پر تحقیقات کے مطالبات میں اضافہ ہوا۔
حالیہ جنگ بندی معاہدے کے تحت درج ذیل نکات نمایاں ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ معاہدہ فلسطینی دھڑوں اور مزاحمتی گروہوں کی رضا مندی اور ان کی بہترین حکمت عملی کے نتیجہ میں ہوا ہے۔غزہ سے غاصب اسرائیلی فوج کا مکمل انخلاء جبکہ امریکی معاہدے میں جزوی انخلاء کی بات کی گئی تھی، اسی طرح غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری امدادی کاروائیوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ صرف اسرائیلی قیدیوں کو نہیں بلکہ دونوں طرف قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا اور ساتھ ساتھ غزہ کی تعمیر نو کے لئے بھی اقدامات اٹھائے جانے پر بات چیت کی گئی ہے۔ فی الحال یہ مرحلہ وار معاہدہ ہے اور مزید تفصیلات آگے آنا باقی ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینی عوام کے لیے ایک عزت مندانہ سیاسی جیت ہے۔
یہ جنگ بندی کا معاہدہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ حماس اب محض ایک عسکری تنظیم نہیں بلکہ ایک سیاسی حقیقت بن چکی ہے۔ اسرائیل اور مغرب کے تمام دباؤ کے باوجود حماس کو مذاکرات کا فریق تسلیم کرنا ایک بڑی سفارتی فتح ہے۔علاوہ ازیں، فلسطینی عوام میں حماس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ مغربی کنارے اور دیگر عرب ممالک میں بھی حماس کی مزاحمتی پالیسی کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔یہ معاہدہ فلسطینی قوم کے لیے امید کی ایک نئی کرن ہے اور مزاحمت کے اس سفر میں ایک تاریخی موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔
غزہ کے ملبے تلے دفن ہونے والے شہیدوں نے دنیا کو ایک پیغام دیا ہے کہ فلسطین صرف ایک زمین کا نام نہیں بلکہ مزاحمت اور وقار کا استعارہ ہے۔اور یہ جنگ بندی، دراصل اس مزاحمت کی فتح کا ایک اور باب ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan