اسلامی تحریک مزاحمت (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) نے ایک عرب میڈیا ادارے کی جانب سے جاری کی گئی ان خبروں کی سختی سے تردید کی ہے جن میں مصر میں جاری مذاکرات کے دوران حماس کے مؤقف سے متعلق من گھڑت باتیں منسوب کی گئی تھیں۔ حماس نے واضح کیا کہ یہ تمام تر دعوے جھوٹ اور گمراہ کن ہیں جن کا مقصد عوامی رائے میں انتشار اور ابہام پیدا کرنا ہے۔
حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ تحریک کے تمام سرکاری مؤقف صرف اور صرف اس کے باضابطہ ذرائع یا نامزد ترجمانوں کے ذریعے جاری کیے جاتے ہیں۔ تحریک نے تمام ذرائع ابلاغ سے اپیل کی کہ وہ صحافتی پیشہ واریت اور غیر جانب داری کا مظاہرہ کریں اور نامعلوم یا غیر مصدقہ ذرائع سے آنے والی خبروں پر انحصار نہ کریں، خصوصاً ایسے نازک وقت میں جب فلسطینی عوام کی زندگی اور مزاحمتی جدوجہد ایک فیصلہ کن مرحلے سے گزر رہی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس نوعیت کی غلط خبریں صرف افراتفری پھیلانے اور عوامی شعور کو گمراہ کرنے کی کوشش ہیں۔ حماس نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے صرف اپنے سرکاری ذرائع کے ذریعے ہی تمام معاملات کو آگے بڑھائے گی۔
یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب مصر میں قابض اسرائیلی وفد اور حماس کے درمیان مصر، قطر اور اقوام متحدہ کی ثالثی میں بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں جن کا مقصد غزہ میں دو برس سے جاری تباہ کن جنگ کے خاتمے اور جنگ بندی کے سمجھوتے تک پہنچنا ہے۔
منگل کی شام حماس کے ایک اعلیٰ سطحی رہنما نے بتایا کہ شرم الشیخ میں جاری مذاکرات کے دوسرے روز کا بیشتر حصہ قابض اسرائیلی افواج کے انخلا کی تفصیلات اور قیدیوں کے تبادلے کے نظام الاوقات پر مرکوز رہا۔ یہ بات انہوں نے غزہ پر مسلط اس طویل اور خونریز جنگ کے خاتمے کے لیے جاری مذاکرات کے تناظر میں کہی۔
رہنما نے تصدیق کی کہ تحریک نے ثالثوں کے حوالے سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیش کردہ منصوبے پر اپنا باضابطہ مؤقف پہنچا دیا ہے، اور وہ اس بات پر آمادہ ہے کہ تمام قابض اسرائیلی قیدیوں اور ان کی لاشوں کو متفقہ تبادلے کے فارمولے کے تحت رہا کیا جائے، بشرطیکہ اس عمل کے لیے ضروری میدان سازگار ہو اور تفصیلات فوری طور پر طے کی جائیں۔
اتوار کے روز ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ حماس کے ساتھ ہونے والی بات چیت ’’انتہائی تیزی اور کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے‘‘ اور امکان ہے کہ مذاکرات کا پہلا مرحلہ آئندہ چند دنوں میں مکمل ہو جائے۔ اس نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ جلد از جلد ایک جامع سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے عمل کو تیز کریں۔