قابض اسرائیلی(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) حکام نے پیر کے روز گلوبل صمود فلوٹیلا کے 171 عالمی رضاکاروں کو جبراً ملک بدر کر دیا جن میں سویڈن کی معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی شامل ہیں۔
عبرانی اخبار “اسرائیل ہیوم” کے مطابق قابض اسرائیل نے ان رضاکاروں کو یونان اور سلوواکیہ روانہ کیا۔
قابض ذرائع ابلاغ کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں گریٹا تھنبرگ سمیت متعدد رضاکاروں کو جنوبی قابض اسرائیل کے رامون ایئرپورٹ پر سفید قمیضوں میں دکھایا گیا۔
قابض اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا کہ ملک بدر کیے گئے افراد کا تعلق یونان، اٹلی، فرانس، آئرلینڈ، سویڈن، پولینڈ، جرمنی، بلغاریہ، لتھوانیا، آسٹریا، لکسمبرگ، فن لینڈ، ڈنمارک، سلوواکیہ، سوئٹزرلینڈ، ناروے، برطانیہ، سربیا اور امریکہ سے ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ بدھ کی شام قابض اسرائیلی بحری افواج نے بین الاقوامی سمندری حدود میں غزہ کی جانب رواں 42 کشتیوں پر مشتمل اسطول الصمود پر حملہ کر کے اسے اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور ان پر سوار سینکڑوں غیر ملکی رضاکاروں کو اغوا کر لیا تھا۔
مزید ملک بدری کی تیاری
اس حوالے سے اسطول الصمود کی حمایت کرنے والی تونسی قانونی ٹیم نے بتایا کہ قابض اسرائیل منگل کو باقی عرب اور اسلامی ممالک کے شرکاء کو بھی ملک بدر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جن میں 15 تونسی شہری بھی شامل ہیں جو اس وقت تک قابض افواج کی حراست میں ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ ان شرکاء کو اردن کے راستے ملک بدر کیا جائے گا، جن میں الجزائر، مراکش، کویت، لیبیا، اردن، پاکستان، بحرین، ترکیہ اور سلطنت عمان کے شہری شامل ہوں گے۔
مزید بتایا گیا کہ تقریباً 170 یورپی رضاکار پہلے ہی یونان منتقل کیے جا چکے ہیں جب کہ 167 دیگر اب بھی ملک بدری کے منتظر ہیں۔
اتوار کی شام 10 تونسی کارکن رہائی کے بعد تیونس کے قرطاج بین الاقوامی ہوائی اڈے پہنچے جہاں ان کا ہزاروں شہریوں نے فلسطینی اور تونسی پرچموں کے ساتھ والہانہ استقبال کیا اور فلسطین کے حق میں نعرے بلند کیے۔
قابض اسرائیل کی قیدیوں سے وحشیانہ سلوک
رہا ہونے والے متعدد رضاکاروں نے صحافیوں کو بتایا کہ دورانِ حراست انہیں انتہائی “ظالمانہ سلوک” کا سامنا کرنا پڑا، انہیں بھوکا رکھا گیا اور ذلت آمیز رویہ اپنایا گیا، بعض کو تو مجبوراً “گندے پانی” پینے پر اکتفا کرنا پڑا۔
یاد رہے کہ عالمی اسطول الصمود گذشتہ اگست کے آخر میں غزہ کے لیے روانہ ہوا تھا تاکہ 18 سال سے جاری قابض اسرائیل کے غیر انسانی بحری محاصرے کو توڑا جا سکے۔ قابض اسرائیلی فوج کی نسل کشی کی اس جنگ میں اب تک 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید، دسیوں ہزار زخمی اور پورے غزہ کی بنیادی ڈھانچے کا بیشتر حصہ تباہ ہو چکا ہے، جس کے نتیجے میں انسانی المیہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق 11 کشتیوں پر مشتمل ایک نیا اسطول، جس میں صحافی اور امدادی کارکن شامل ہیں، غزہ کے ساحلوں تک پہنچنے اور قابض اسرائیلی محاصرے کو چیلنج کرنے کی تیاری میں ہے۔