قاہرہ(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن )اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے اعلان کیا ہے کہ اس کا اعلیٰ سطحی وفد، جو غزہ میں حماس کے رہنما ڈاکٹر خلیل الحیہ کی قیادت میں ہے، مذاکرات کے سلسلے میں عرب جمہوریہ مصر پہنچ گیا ہے۔ وفد مصر میں قابض اسرائیل کے ساتھ فائر بندی، صہیونی افواج کے انخلا اور اسیران کے تبادلے کے طریقہ کار پر مذاکرات شروع کرے گا۔
اتوار کے روز پہلی بار حماس کے رہنما اور مذاکراتی وفد کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے اپنی زندگی پر 9 ستمبر کو دوحہ میں قابض اسرائیل کے فضائی حملے میں ہونے والی ناکام قاتلانہ کوشش کے بعد میڈیا پر سامنے آئے۔ ان کی ویڈیو عربی ٹیلی ویژن چینل نے نشر کی۔
گذشتہ جمعے کی شام تحریک حماس نے اعلان کیا تھا کہ اس نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی منصوبے کے جواب میں اپنا موقف ثالثوں کے حوالے کر دیا ہے۔
امریکی وائٹ ہاؤس نے پیر کے روز اس منصوبے کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا کہ “اگر دونوں فریق اس تجویز پر متفق ہو جائیں تو جنگ فوراً ختم کر دی جائے گی۔”
اس منصوبے کے مطابق قابض اسرائیل کے زندہ قیدیوں اور ہلاک شدہ فوجیوں کی باقیات کو معاہدے کے اعلان کے 72 گھنٹوں کے اندر واپس کیا جائے گا، اس کے بعد مزاحمتی قوتوں سے اسلحہ جمع کرنے اور غزہ کے لیے اقتصادی و انتظامی منصوبہ ترتیب دینے کا عمل شروع کیا جائے گا۔
غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر نے بتایا کہ قابض اسرائیل کی فوج نے فائر بندی کی تمام اپیلوں کے باوجود غزہ پر اپنی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے۔ صرف گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران صہیونی جنگی طیاروں اور توپ خانے نے 93 سے زائد بمباری کی کارروائیاں کیں جن کے بیشتر حملے پناہ گزینوں اور شہری آبادی والے علاقوں پر کیے گئے۔
دوسری جانب مصر کی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ وہ پیر کے روز تحریک مزاحمت اسلامی حماس اور قابض اسرائیل کے دو وفود کی میزبانی کرے گی۔ ان مذاکرات کا مقصد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے کے تحت قیدیوں کے تبادلے پر غور کرنا ہے۔
الجزیرہ ٹی وی کے مطابق ایک سفارتی ذریعے نے انکشاف کیا کہ “ٹرمپ پلان کے پہلے مرحلے کے نفاذ سے متعلق تکنیکی مذاکرات پیر کے روز شرم الشیخ میں شروع ہوں گے۔”
ذرائع نے بتایا کہ حماس کا مذاکراتی وفد آج اتوار کو دوحہ سے مصر روانہ ہوا تاکہ بات چیت میں شریک ہو سکے جبکہ قطری وفد بھی پیر کے روز مذاکرات کے آغاز پر مصر پہنچے گا۔