قابض اسرائیلی(مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) حکام نے گلوبل صمود فلوٹیلا کے 29 بین الاقوامی رضاکاروں کو جبراً اسپین بدر کر دیا ہے۔ یہ وہ کارکنان ہیں جنہیں صہیونی فورسز نے غزہ کا بحری محاصرہ توڑنے کی کوشش کے دوران بین الاقوامی پانیوں سے اغوا کر لیا تھا۔
فلوٹیلا کے شرکاء نے قابض اسرائیل کے حملے اور اپنی اسیری کے دوران پیش آنے والے واقعات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں وحشیانہ تشدد، بھوک پیاس اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑا۔
قابض اسرائیل کی فورسز نے بدھ کی شب فلوٹیلا کی 42 کشتیوں پر حملہ کیا جو بین الاقوامی پانیوں میں غزہ کی سمت رواں تھیں۔ حملے کے دوران صہیونی اہلکاروں نے درجنوں کشتیوں پر قبضہ کر کے ان پر سوار سینکڑوں عالمی کارکنان کو گرفتار کر لیا۔
ترکیہ کی وزارت خارجہ نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا کہ تقریباً 137 کارکنان کو قابض اسرائیل نے حراست میں لینے کے بعد ترکیہ بھیج دیا ہے۔ ان میں 36 ترک شہریوں کے علاوہ امریکہ، متحدہ عرب امارات، الجزائر، مراکش، اٹلی، کویت، لیبیا، ملیشیا، موریتانیا، سوئٹزرلینڈ، تیونس اور اردن کے کارکنان شامل تھے۔
ترکیہ کی کارکن اقبال غوربنار نے حراست کے دوران پیش آنے والی اذیتوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ “قابض اسرائیل کی فورسز چاہتی تھیں کہ ہم خوف سے ٹوٹ جائیں اور رونے لگیں، مگر ہم نے ان کے ظلم کے مقابلے میں ہنسی، گیت اور حوصلے سے جواب دیا۔ وہ حیران رہ گئے کہ اتنے مظالم کے باوجود ہم کیسے ثابت قدم اور خوش رہ سکتے ہیں؟”
انہوں نے مزید بتایا کہ “ہمیں خوراک اور پانی کی شدید قلت کا سامنا تھا، چودہ افراد کے لیے صرف ایک کھانے کی تھالی دی جاتی تھی۔ ہماری دوائیں ضبط کر کے پھینک دی گئیں، اور لیپ ٹاپ، موبائل فون اور چارجرز صہیونی اہلکاروں نے چھین لیے۔”
اطالوی پارلیمنٹ کی رکن بینیڈیٹا سکودیری نے بتایا کہ ان کی گرفتاری کا انداز “انتہائی وحشیانہ اور غیر انسانی” تھا۔
گلوبل صمود فلوٹیلا نے اگست کے اواخر میں غزہ کے ظالمانہ بحری محاصرے کو چیلنج کرنے کے لیے اپنی پرامن مہم کا آغاز کیا تھا۔ فلوٹیلا پر صہیونی حملے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے قابض اسرائیل کے اس اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے بھی فلوٹیلا پر حملے کی شدید مذمت کی اور اس بات پر زور دیا کہ انسانی امدادی مشن پر حملہ کسی طور قابل قبول نہیں۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ قابض اسرائیل نے غزہ جانے والی امدادی کشتیوں کو نشانہ بنایا ہو۔ ماضی میں بھی وہ ایسی پرامن کشتیوں پر حملے کر کے کارکنان کو اغوا اور جبراً ملک بدر کر چکا ہے۔