فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی صہیونی تنظیم “بیتسلیم” نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین میں یہودی آبادکاری کےمختلف منصوبوں کے ذریعے مغربی کنارے کے 42 فیصد رقبےپر قبضہ کر لیا ہے. فلسطین میں غیر قانونی یہودی آبادکاری سے متعلق “بیتسلیم” نے پیر کے روز ایک رپورٹ جاری کی ہے،جس میں یہودی آبادکاری کے توسیعی منصوبوں اور اس کےمسلسل پھیلتے ہوئے جغرافیائی دائرے پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے. تازہ رپورٹ اسرائیلی فوج کے تیار کردہ نقشوں، شہری انتظامیہ کی دستاویزات اور اسرائیل کی آبادکاری سے متعلق نگراں اتھارٹی کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں تیار کی گئی ہے. اسرائیلی حکومت کی سرکاری دستاویزات کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ حکومتی ریکارڈ میں ابھی تک مغربی کنارے کے صرف ایک فیصد رقبے پر یہودی بستیاں تعمیر کی گئی ہیں، تاہم مغربی کنارے کی یہودی بلدیاتی حکومتوں اور مقامی کونسلوں نے اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے مغربی کنارے کے کم از کم بیالیس فیصد حصے کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے. رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے مغربی کنارے میں یہودی آبادی کی توسیع کے لیے روز اول سے ہی غیر قانونی ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے عالمی قانون کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا، اور رقبہ ہتھیانے کے لیے خودساختہ قانون اور فوجی احکامات کو آڑ بنایا جاتا رہا ہے. رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیل پچھلے کئی برسوں سے یہ دعویٰ کرتا آیا ہے کہ وہ مغربی کنارےمیں مخصوص ملکیتی رقبے پر تعمیرات کرتا رہا ہے، تاہم 2009 میں فضا سے یہودی آبادیوں کی لی گئی تصاویر حکومت کے اس دعوے کی نفی کرتی ہیں، یہ تصاویر ظاہر کرتی ہیں کہ اسرائیل نے”ملکیتی رقبہ” کےبہانے یہودی آبادیوں کے درمیان موجود فلسطینی شہریوں کی املاک پر بھی قبضہ کر لیا ہے اور اس طرح فلسطینیوں کی ملکیت کا اکیس فیصد رقبہ بھی یہودی کالونیوں کا حصہ قرار دیا گیا ہے. “بیتسلیم”کی رپورٹ کے مطابق 2004 سے 2009ء کے آخیر تک مغربی کنارےمیں یہودی آبادکاروں کی تعداد میں 28 فیصد اضافہ ہوا اور یہودیوں کی تعداد 02 لاکھ 35 ہزار سےبڑھ کر تین لاکھ سے زیادہ ہو گئی. رپورٹ بتاتی ہے کہ یہودی آبادکاری میں اضافہ سالانہ بنیادوں پر ہوتا رہا ہے تاہم 2008ء میں مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری میں سابقہ برسوں کی نسبت تین گنا اضافہ ہوا . سنہ 1993ء میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے اوسلو معاہدے کے وقت یہودی آبادکاری کی شرح ایک اعشاریہ آٹھ فیصد تھی جو 2008 میں بڑھ کر پانچ اعشاریہ ایک فیصد تک پہنچ گئی